رنگون (جیوڈیسک) میانمار کی رہنما اور نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی نے کہا ہے کہ حکومت کے روہنگیا بحران سے نمٹنے پر بین الاقوامی تحقیقات کا انہیں کوئی ڈر نہیں۔ ملک کے شمالی رخائن صوبے میں جاری بحران پر اپنے پہلے قومی خطاب میں انہوں نے کہا کہ زیادہ تر مسلمانوں نے صوبے سے نقل مکانی نہیں کی جبکہ پرتشدد کارروائیاں رک گئیں ہیں۔
آنگ سان سوچی نے کہا کہ وہ یہ خطاب اس لیے کر رہی ہیں کیونکہ وہ رواں ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شریک نہیں ہو رہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ بین الاقوامی برادری یہ جان لے کہ ان کی حکومت حالات سے نمٹنے کیلئے کیا کر رہی ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کی تمام پامالیوں کی مذمت کی اور کہا کہ جو کوئی بھی اس کا مرتکب ہے، اس کو سزا دی جائے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ رخائن میں زیادہ تر مسلمان گاؤں میں موجود ہیں اور ہر شخص نے راہ فرار اختیار نہیں کی، ہم بین الاقوامی برادری کو یہاں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔
رخائن میں امن و امان بحال کرنے کیلئے حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ رخائن میں جو کچھ ہوا اس کا میانمار کو شدید احساس ہے۔ ہم بنگلہ دیش جانے والے مسلمانوں کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ہم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ میانمار ایک پیچیدہ ملک ہے، ہم نے بحران کو حل کرنے اور قانون کی حکمرانی کو بحال کرنے کیلئے ایک مرکزی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کو زیر التوا مسائل کو حل کرنے کیلئے مجوزہ کمیشن کی قیادت کیلئے مدعو کیا ہے۔ آنگ سان سوچی کا کہنا تھا جو لوگ میانمار واپس آنا چاہتے ہیں ان کیلئے ہم پناہ گزین شناختی عمل شروع کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ہم مذہب اور نسل کے نام پر میانمار کو منقسم دیکھنا نہیں چاہتے۔
واضح رہے کہ نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو ملک میں جاری بحران پر ان کے رد عمل پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔