تحریر : رانا اعجاز حسین اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہم گزشتہ اڑسٹھ برسوں سے انسانی حقوق کا عالمی دن منارہے ہیں لیکن اس کے باوجود نامعلوم کیا مجبوریاں ہیں کہ مقبوضہ کشمیر سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں، اور اور ترقی یافتہ ممالک سے آزادی کے نام پر خواتین کی عصمت کی پامالی کا سلسلہ نہ رک سکا۔ آج بھی ترقی یافتہ ، اور انسانی حقوق کے تحفظ کے سب سے بڑے علمبردار ملک امریکہ میں انسانی حقوق کے معاملے میں پستی کا یہ عالم ہے کہ کالوں کے بچوں کے علیحدہ سکول ، علیحدہ بسیں، اسپتال، ہوٹل، کلب، اور آبادیاں تک علیحدہ ہیں ۔ امریکہ ہی کیا مغربی یورپ کے کسی بھی ملک میں کالی رنگت والوں کے ساتھ امتیازی سلوک رواء رکھا جاتا ہے۔ پڑوسی بھارت جو کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ساتھ سیکولر ہونے کا بھی دعویدار ہے، وہاں ذات پات کے نام پر انسانوں پر ظلم و جبر صدیوں سے جاری ہے۔ جو اعلیٰ ذات کے گھرانے میں پیدا ہو گیا وہ چھوٹی ذات والوں پر ہر طرح ظلم رواء رکھ سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے ہم غور کریںکہ کیااس سال بھی انسانی حقوق کے عالمی دن پر محض تقاریر ہوں گی ، پر جوش نعرے لگیں گے، اجتماعات منعقد ہوں گے، ریلیاں نکالی جائیں گی، دورجاہلیت کا موازنہ و مقابلہ موجودہ جدیدکے ساتھ کیا جائے گا، لیکن ہو گا وہی کچھ جو کچھ پہلے ہوتا رہا ہے…؟سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے محض ایک دن انسانی حقوق کے لئے مناکر باقی تین سو چونسٹھ دن انسانی حقوق کی پامالی…! کیا ایٹمی ہتھیاروں کی روڑ میں شامل عالمی پاوروں کے یہ روز بروز بڑھتے ایٹمی ہتھیار انسانی حقوق یا انسانیت کی فلاح کے لئے ہیں…!۔
قارئین کرام ! دوسری عالمی جنگ کی بدترین تباہ کاریوں اور اس میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پیش نظرلیگ آف نیشن کو ختم کرکے اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا اور اس کے چارٹر میں انسانی حقوق کی حفاظت کی شق پہلے ہی سے شامل تھی تاہم سرد جنگ کے خاتمے کے بعد 1993ء کو آسٹریا کے شہر ویانا میں ہونے والے عالمی کانفرنس میں انسانی حقوق کے حوالے سے پروگرام آف ایکشن تیار کیا گیا جسے ویانا ڈکلیریشن اینڈ پروگرام آف ایکشن کا نام دیا گیا ، کانفرنس میں 171 ممالک اور آٹھ سو غیر سرکاری تنظیموں کے تقریباً سات ہزار مندوبین نے شرکت کی۔ اسی مناسبت سے ہر سال10 دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے چارٹر اور قرارداد کی رو سے دنیا بھر کے انسانوں کو ہر طرح کے حقوق جن میں جینے کا حق، امتیازسے پاک مساوات یا برابری کا حق، اظہار رائے کی آزادی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق جن میں روزگار، سماجی تحفظ، تعلیم، صحت، ترقی اور حق خودارادیت اور دیگر حقوق شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک اور انسانی حقوق کے چارٹر پر دستخط کرنے والے ممالک پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو یہ تمام حقوق نہ صرف فراہم کریں بلکہ انہیں مقدم جانیں۔لیکن اس کے باوجود آج دنیا کے بیش تر ممالک میں کہیں رنگ و نسل کے نام پر ، کہیں ذات پات کے نام پر ، تو کہیں مذہب کے نام پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ، اور انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری ہے۔جبکہ اپنے قانون پر عمل درآمد کروانے میں اقوام متحدہ کا کردار انتہائی کمزور ہے، یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم، اور انسانی حقوق کی پامالی کی انتہاء ہوچکی ہے۔
Islam
انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام اور باہمی مساوات پر مبنی ہے ۔اللہ ربّ العزت نے نوع انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت و تکریم عطا کی ہے۔قرآن کریم میں شرف انسانیت وضاحت کے ساتھ بیان کیاگیاہے کہ تخلیق آدم کے وقت ہی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اس طرح نسل آدم کو تمام مخلوق پر فضلیت عطاء کی ، اور بنی نوع انسان کو تمام اقوام و مذاہب میں سب سے زیادہ انسانی حقوق دیے ہیں ، کیونکہ اسلام دین فطرت اور فلاح و سلامتی کا مذہب ہے۔ اسلام نے تمام نوع انسانی میں رنگ و نسل، زبان اور قومیت کی بناہ پر سارے امتیازات کی جڑ کاٹ دی۔ اسلام کے نزدیک یہ حق انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے حاصل ہے کہ اس کے ساتھ اس کے رنگ یا اس کی پیدائش کی جگہ یا اس کو جنم دینے والی نسل و قوم کی بنا پر کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔ اسے دوسروں کی بہ نسبت حقیر نہ ٹھہرایا جائے، اور اس کے حقوق دوسروں سے کمتر نہ رکھے جائیں۔ جبکہ سترہویں صدی سے پہلے اہل مغرب میں حقوق انسانی اور حقوق شہریت کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ سترہویں صدی کے بعد بھی ایک مدت تک فلسفیوں اور قانونی افکار پیش کرنے والے لوگوں نے تو ضرور اس خیال کو پیش کیا تھا۔ لیکن عملاً اس تصور کا ثبوت اٹھارہویں صدی کے آخر میں امریکہ اور فرانس کے دستوروں اور اعلانات ہی میں ملتا ہے۔ جبکہ بادشاہوں اور قانون ساز اداروں کے دیے ہوئے حقوق جس طرح دیے جاتے ہیں، اسی طرح جب وہ چاہیں واپس بھی لئے جا سکتے ہیں، لیکن اسلام میں یہ حقوق اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیے گئے ہیں۔
دنیا کی کوئی مجلس قانون ساز ادارہ اور دنیا کی کوئی حکومت ان کے اندر رد و بدل کرنے کی مجاز نہیں ۔ ان کو واپس لینے یا منسوخ کر دینے کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اسلام ہر انسان کو، خواہ وہ ہمارے اپنے ملک اور وطن کا ہو یا کسی دوسرے ملک اور وطن کا، ہماری قوم کا ہو یا کسی دوسری قوم کا، مسلمان ہو یا غیر مسلم، کسی جنگل کا باشندہ ہو یا کسی صحراکا ، محض انسان ہونے کی حیثیت سے اس کے کچھ حقوق مقرر کئے ہیں جن کو ایک مسلمان ادا کرنے کا لازماً پابند ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع میں بھی واضح الفاظ میں اعلان فرمایا ”اے لوگوخبر دار ہو جاؤ کہ تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ آدم علیہ السلام ایک ہے۔کسی عرب کو غیر عرب اور کسی غیر عرب کو عرب پر کوئی فضیلت نہیں، اور نہ کسی سفید فام کو سیاہ فام پر اور سیاہ فام کو سفید فام پر فضلیت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے۔ اور تمام انسان آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کیے گئے۔
اسی طرح اسلام نے تمام قسم کے امتیازات اور ذات پات ، رنگ نسل ، جنس زبان ، حسب ونسب اور مال و دولت پر مبنیٰ تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام انسانوں کوایک دوسرے کے ہم پلہ قرار دیا خواہ وہ امیر ہوں یا غریب سفید ہوںیا سیاہ، مشرق میں ہوں یا مغرب میں، مرد ہوں یا عورت اور چاہے وہ کسی بھی لسانی یا جغرافیائی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ انسانی مساوات کی اس سے بڑی مثال کوئی اور نہیں ہو سکتی۔ غرضیکہ تعلیمات اسلام کی رو سے دنیا بھر کے انسانوں کو ہر طرح کے حقوق جن میں جینے کا حق، امتیازسے پاک مساوات یا برابری کا حق، اظہار رائے کی آزادی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق جن میں روزگار، سماجی تحفظ، تعلیم، صحت، ترقی اور حق خودارادیت اور دیگر حقوق شامل ہیں۔ دین حق اسلام انسان کو اس بات کا پابندبناتا ہے کہ اظہار خیال کے نام پر وہ بے حیائی نہ پھیلائی جائے، کسی کی دل آزاری نہ کی جائے، کسی کا مذاق نہ اڑایا جائے، کسی کی عزت و آبرو سے نہ کھیلا جائے اور ملک و ریاست کو خطرے میں نہ ڈالا جائے اور اس کے خلاف سازش نہ کی جائے۔فلاح انسانی پر مبنی ان شرائط کے ساتھ تمام انسانوں کو اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین ای میل:[email protected] رابطہ نمبر:03009230033