یہ دس دسمبر 1948ء کا دن تھا کہ جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ممبر ممالک نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے ایک قانونی مسودہ تیار کیا جس میں متفقہ طور پر یہ باتیں طے کی گئیں کہ ہر انسان کو آزادی کے ساتھ جینے کا حق ہو گا۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق رہن سہن اختیار اور آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کر سکے گا۔ اسی طرح رنگ، نسل اور ذات پات کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گے۔
کسی کو بلاوجہ اور ظالمانہ طریقہ سے گرفتار نہیں کیاجائے گا۔عدلیہ اور مقننہ صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ انداز میں مقدمات چلائیں گی اور کسی بھی ملزم کو اس وقت بے قصور خیال کیاجائے گا جب تک اس پر ٹھوس الزامات ثابت نہیں ہو جاتے۔ یہ چند ایک اہم قوانین تشکیل دیے گئے تھے جسے ایک قانونی مسودہ کی شکل دیکر پاس کیا گیا۔مسودے میںیہ بھی کہا گیا کہ کوئی ملک جنرل اسمبلی کا ممبر ہو یا نہ ہو ان سب کو کم از کم ان وضع شدہ انسانی حقوق کا تحفظ کرنا لازمی ہوگا۔لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ کشمیر، فلسطین، افغانستان، برما اراکان اور انگولا سمیت پوری دنیا میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں ۔ ہر جگہ مسلمانوں کو تختہ مشق بنایا جارہا ہے۔ایک طرف ان کی عزتیں و عصمتیں، جانیں اور املاک محفوظ نہیں ہیںتو دوسری طرف مساجدومدارس کو سرکاری سرپرستی میں شہید کیا جارہا ہے اوراسلامی شعائر کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔ اگر بغور جائزہ لیاجائے تو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ہی اس کی دھجیاں بکھیرنے میں سب سے پیش پیش ہیں۔
اقوام متحدہ کے ممبر ممالک میں سے بھارت نے اپنے آئین میں انسانی حقوق کا بڑی اہمیت کے ساتھ تذکرہ کیا ہے اور اپنے ملک کے عوام کو چاہے وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں، ہندو ہوں یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے ہوں سب کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی جن کا بین الاقوامی قوانین تقاضا کرتے ہیں۔جانوروں کے حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی بھارتی خاتون مینکا گاندھی کے کیس میں انڈین سپریم کورٹ نے تو اس کا پاسپورٹ ضبط کرنے کو اپنے آئین کے آرٹیکل 21کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے انسانی آزادی سلب کرنے کے مترادف قراردیامگر جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے جو بھارت میں تیس کروڑ کی تعداد میں ہیں ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ احمد آباد گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا ، گودھرا ٹرین اور سمجھوتہ ایکسپریس میں معصوم مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ مکہ مسجد، مالیگائوں اور دیگر دہشت گردی کے واقعات میں ہندو انتہا پسندوںکے ملوث ہونے کے باوجود ہزاروں مسلمان ابھی تک ان ناکردہ جرائم کی سزا بھگت رہے ہیں۔ تعلیم میں انہیں سب سے پیچھے رکھا گیا ہے۔ اچھے سکولوںمیں مسلمان بچوں کو داخلہ تک نہیں دیاجاتا۔ بلاوجہ گرفتاریوںکی وجہ سے جیلوںمیں ان کی تعداد آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ ہے۔دفاتر، تعلیمی اداروں، شاہراہوں اور گلی محلوںمیں مندر تعمیر کرنے کی تو آزادی ہے مگر مسجد وں میں نمازوں کی ادائیگی پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔بابری مسجد سمیت سینکڑوں مساجد کو ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے شہید کر دیا گیا اور بہت سی تاریخی مساجد ایسی ہیں جہاں نمازوں کی ادائیگی کیلئے مسلمانوں کا داخلہ بندہے مگر ہندو انتہا پسند وہاں بیٹھ کر مسلمانوں کے ہی قتل عام کے منصوبے بناتے ہیں انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔
Kashmir
اسی طرح اگر ہم مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لیں جہاں بھارت نے تقسیم ہند سے ہی اپنا غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے تو وہاں کی صورتحال بھی دل دہلا دینے کے مترادف ہے۔ انسانی حقوق کا تحفظ تو دور کی بات یہاں انسانی حقوق کیلئے آواز بلند کرنا بھی بہت بڑا جرم ہے۔یہاں پاسپورٹ ضبط کرنا تو دور کی بات’ بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو پاسپورٹ دیا ہی نہیں جاتا۔ ہر گھر پر پہرہ ہے۔ ہر گلی کی نکر پر بھارتی فوجی یا سی آر پی ایف کا اہلکار کھڑا ہے۔وہ آٹھ لاکھ بھارتی فوج جس کے بارے میں بھارت کہتا ہے کہ یہ مقبوضہ کشمیر میں امن قائم کرنے کیلئے ہے وہی سب سے زیادہ انسانی حقو ق کی پامالیوںمیںمصروف ہے۔ حالیہ بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ کی طرح دوسرے فوجی اہلکاراور افسران بھی محض ترقیوں و تمغوں کے حصول کیلئے فرضی جھڑپوں میں نہتے نوجوانوںکا قتل عام کرنے میںمصروف ہیں یہی وجہ ہے کہ آج تک بھارتی فوجی کیمپوں سے اجتماعی قبریں برآمد ہو رہی ہیں اور ہزاروں لاپتہ کشمیری نوجوانوں کی تلاش کی جائے تو ان کا کھرا انہی بھارتی فوجی کیمپوں کی جانب ہی نکلتا ہے۔
سانحہ کنن پوشہ پورہ جیسے کتنے ایسے واقعات ہیں جن میں دس سال کی بچی سے لیکر ستر سال تک کی بوڑھی خاتون کو بھارتی فوجی درندوں کی جانب سے اجتماعی درندگی کانشانہ بنایا گیا۔کسی کا جان ومال، عزت اور گھر بار محفوظ نہیں ہے۔ 1978ء میں ریاست میںپبلک سیفٹی ایکٹ کا نفاذعمل میں لایا گیا جو بظاہر جنگل ا سمگلروں کے خلاف استعمال میں لایاجانا تھا لیکن اسے آج تک مخالفا نہ سیا سی نظریہ رکھنے والوں کے خلاف بے دریغ استعمال کیا جاتا رہاہے۔ اس ایکٹ کی زد میں اب تک ہزاروں کشمیری آچکے ہیں۔ حالیہ برسوں میں نابالغ بچے اور بوڑھے بھی اس زد میں آتے رہے۔ یہاں کی عام دیہاتی اَن پڑھ عورت بھی اس کالے قانون کا نام سن کر کانپ اْٹھتی ہے۔ 1978ء سے یہ کالا قانون چل رہا تھاکہ 1990ء میں ”افسپا” کے نام سے ایک اور تلوار کشمیریوں پر لٹکا دی گئی۔ افسپایعنی آرمڈفورسز اسپیشل پاورز ایکٹ کے سیکشن 4کے تحت کوئی بھی جونیئرکمیشنڈ افسر شک کی بنیاد بناکر کسی بھی کشمیری پر کوئی بھی ملٹری کارروائی کرسکتاہے۔ اس قانون نے یہاں کو ن کو ن سے گل کھلا ئے وہ ہر کس وناکس پرعیاں ہے۔ اس کی ایک جھلک یہ بھی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آ ج بھی ہزاروں زیر حراست لاپتہ افراد کاکوئی اَتہ پتہ نہیں ہے۔
یہاں قبرستانوں کے قبرستان آباد ہو گئے ،بے نام قبروں کی بھر مارہو گئی مگرکشمیریوںکے بھرپور احتجاج کے باوجود ”افسپا”ابھی تک نافذالعمل ہے۔آج ایک بار پھر 10دسمبر 2013ء کو جب پوری دنیا میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جارہا ہے تو مظلوم کشمیری قوم سوال کرتی ہے کہ اقوام متحدہ کے ممبر ممالک اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے مقبوضہ کشمیر میں ہر روز بڑھتے ہوئے بدترین بھارتی مظالم پر خاموش کیوں ہیں؟ کیا انہیں یہاں ہونے والی قتل و غارت گری، اجتماعی قبریں، کشمیری نوجوانوں کااغوائ، فرضی جھڑپوں میں شہادتیں ، خواتین کی عصمت دری اور املاک کی بربادی نظر نہیں آتی۔ آخر ان کی زبانیں کیوں خاموش ہیں؟ کیا مظلوم کشمیر ی یہ سوچنے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ مشرقی تیمور کا مسئلہ ہو تو اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے فی الفور حرکت میں آجاتے ہیں لیکن کشمیر جس کے بارے میں خود اقوام متحدہ قراردادیں پاس کر چکی ہے وہاں بھارت کے فوجی قبضہ کے خلاف کوئی بات تک کرنے کو تیارنہیں ہے؟ آج اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی کو طویل عرصہ سے گھر میں نظر بند رکھا گیا ہے۔ چند دن قبل ان کی رہائی کا اعلان کیا گیا لیکن عملا ان کی سرگرمیوں کو محدود کر دیا گیا ہے۔ ترال اور بانڈی پورہ میں جلسوں میں شرکت کیلئے انہیں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ آٹھ دسمبر اتوار کو سری نگر میں ہونے والا جلسہ عام تحریک حریت کو سید علی گیلانی اور دیگر رہنمائوں کی نظر بندی اور پکڑدھکڑ کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا۔جے کے ایل ایف کے سربراہ یٰسین ملک کی بات کی جائے تو دہلی میں انہیں ان کی اٹھارہ ماہ کی بچی اور اہلیہ کے ہمراہ کسی ہوٹل میں ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور وہ گھنٹوں معصوم بچی اور بیوی کے ہمراہ سڑک پر بیٹھنے پر مجبور رہتے ہیں۔ اسی طرح دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی کے شوہر ڈاکٹر محمد قاسم اور مسرت عالم بٹ سمیت بیسیوں حریت پسند کشمیری قائدین جیلوں میں ڈال دیے گئے ہیں اور مقدمات ختم ہونے کے باوجود ان کی رہائی عمل میں نہیں لائی جارہی۔
جیلوں میں ناقص غذائیں ملنے سے وہ خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ انہیں نہ صرف طبی سہولیات میسر نہیں ہیں بلکہ ان کے نمازیں و قرآن پڑھنے پر پابندی لگا کر بھجن گانے پر مجبور کیا جاتا ہے، تحریک آزادی کمزور کرنے کیلئے حریت پسند رہنمائوں اور سرگرم کارکنان کو تاحیات عمر قید کی سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔
Hafiz Mohammad Saeed
آج کشمیری قوم زبان حال سے انسانی حقو ق کے عالمی دن منانے والے ملکوں، عالمی اداروں اور تنظیموں سے یہ بات کہہ رہی ہے کہ وہ ہمارے سروں سے انسانیت کو شرمسار کرنے والے ظالمانہ قوانین کی تلوار اتارنے اور بھارت کی آٹھ لاکھ فوج کو جنت ارضی کشمیر سے نکالنے میںعملی کردار اادا کریں اور اگر وہ ایسا نہیںکر سکتے تو پھر یہ دن منانے کی ڈرامہ بازی کا سلسلہ ترک کریں اور خدارا ان کے زخموں پر نمک پاشی مت کریں۔ کشمیری قوم اللہ کے فضل و کرم سے ڈیڑھ لاکھ قربانیاں پیش کر کے بھی تھکی نہیں ہے۔ وہ اپنی جدوجہد آزادی کو ان شاء اللہ جاری رکھے گی اور جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کی یہ بات بھی درست ہے کہ امریکہ کے خطہ سے نکلنے کے بعد بھارت کے غبارے سے بھی ہوا نکل جائے گی اور پھر اتحادیوں کہ شہہ پر خطہ کا تھانیدار بننے کے خواب دیکھنے والا بھارت مقبوضہ کشمیر پر بھی اپنا غاصبانہ قبضہ کسی صورت برقرار نہیں رکھ سکے گا۔