انسانی حقوق اور اسلام

Islam

Islam

اسلام انسانی حقوق کے اہم محافظ ہیں اور حقوق انسانی کا مفہو م یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں تنہا نہیں رہ سکتا، وہ دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے پر مجبور ہے، اپنی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل اور آفات ومصائب کے ازالہ کے سلسلہ میں دوسرے انسانوں کے تعاون کا محتاج ہے، اس قضیہ کے پیش نظر ہر انسان کا یہ عقلی و طبعی حق بنتا ہے کہ دوسرااس کی مدد کرے، اس کے حقوق و فرائض کا لحاظ رکھے۔

انسان کے بنیادی اور فطری حقوق کے تحت جن جن امور کو شامل کیاجاتا ہے ان میں حقوق اِنسانی کا جامع ترین تصور، انسانی مساوات کا حق، انسانی عزت وآبرو کی حفاظت، انسانی جان ومال اورجائداد کی حفاظت، مذہبی آزادی کا حق، آزادی ضمیر کا حق ضروریات زندگی کا انتظام، انسانی حقوق میں فرد و معاشرے کی رعایت، بچوں کے حقوق کی حفاظت، اسی طرح انسانوں کے معاشی و ثقافتی اور تعلیمی حقوق نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔

حقوقِ انسانی کا جامع ترین تصور اسلام نے دیا: مغرب نے حقوقِ انسانی کا جو تصور پیش کیا ہے وہ انتہائی ناقص اور فرسودہ ہے، اس کے اندر اتنی وسعت نہیں کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں کا احاطہ کرسکے اس کے باوجود مغرب حقوق انسانی کی رٹ لگائے تھکتا نہیں، لیکن محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مربوط نظام، انسانی حقوق کا پیش کیا وہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے، جن میں احترام انسانیت، بشری نفسیات ورجحانات اور انسان کے معاشرتی، تعلیمی، شہری، ملکی، ملی، ثقافتی، تمدنی اورمعاشی تقاضوں اور ضروریات کا مکمل لحاظ کیاگیا ہے اور حقوق کی ادائیگی کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر کسی شخص نے دنیا میں کسی کا حق ادا نہیں کیا تو آخرت میں اس کو ادا کرنا پڑے گا ورنہ سزا بھگتنی پڑے گی، حتیٰ کہ جانوروں کے آپسی ظلم وستم کا انتقام بھی لیا جائے گا۔

اللہ کے رسول اللہ نے فرمایا: حق والوں کو ان کے حقوق تمہیں ضرور بالضرور قیامت کے روز ادا کرنے پڑیں گے، حتیٰ کہ بے سنگھے بکرے کو سینگھ والی بکری سے بدلہ دیا جائے گا۔انسانی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت انسانی حقوق میں سب سے پہلا اور بنیادی حق ہے اس لیے کہ جان سب سے قیمتی اثاثہ ہے، اس کے اردگرد زندگی کی سرگرمیاں گھومتی ہیں، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی، سب سے پہلے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان وحشی درندوں کو انسانی جان کا احترام سکھایا، اور ایک جان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ قرآن پاک میں بھی اس کی تائید کی گئی چنانچہ ارشاد باری ہے: جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے، یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اس نے گویا تمام لوگوں کا قتل کیا، اور جو اس کی زندگی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا۔

Prophet Muhammad (P.B.U.H)

Prophet Muhammad (P.B.U.H)

اسی طرح ارشاد نبوی ہے: رحم کرنے والوں پر اللہ رحم کرتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔ دوسری حدیث میں ارشاد ہے: اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر رحم نہ کرے۔ اور مال کے تحفظ کو یوں موکد کیاگیا ہے، ارشاد ربانی: اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ، واضح رہے کہ انسانی زندگی کی بقاء کے لیے مال بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔جس طرح حق زندگی اور تحفظ مال، انسان کے بنیادی حقوق ہیں، اسی طرح عزت وآبرو کا تحفظ بھی انسان کا بنیادی حق ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے، ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے، ممکن ہے کہ وہ اس سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ، اور ایک دوسرے کو برے نام سے مت پکارو۔ اسلامی معاشرہ میں چونکہ ہر فرد کو مساوی حقوق حاصل ہیں کسی کا کسی پر بے جا دباؤ نہیں، ہر ایک آزاد اور خود مختار ہے اس لیے اسلام نے انسان کی شخصی آزادی کی بقاء کے لیے انسان کی نجی اور پرائیویٹ زندگی میں مداخلت سے دوسروں کو روکا ہے اور خواہ مخواہ کی دخل اندازی، ٹوہ بازی اور بلا اجازت کسی کے گھر میں دخول سے منع کیا ہے۔

ارشاد حق ہے: مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں) کے گھروں میں گھر والوں سے اجازت لیے اور ان کو سلام کیے بغیر داخل نہ ہواکرو۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: اے ایمان والو! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ (بعض) گمان گناہ ہے اور ایک دوسرے کے حال کی ٹوہ میں نہ رہا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ اسی طرح اسلام میں مذہب اور ضمیر و اعتقاد کے تحفظ کی گارنٹی یوں دی گئی: دین اسلام میں زبردستی نہیں ہے، ہدایت یقینا گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے۔ اسلامی تاریخ اس بات سے عاری ہے کہ مسلمانوں نے کبھی اپنی غیرمسلم رعایا کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا ہو، یا کسی قوم کو مار مار کر کلمہ پڑھوایا ہو۔ دنیا بھر میں 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے منشور کی تیاری کے وقت انسانی حقوق کاموضوع مختلف ممالک کے نمائندوں کی توجہ کامرکزتھا۔اسی مشترکہ نظریہ کے پیش نظر جنوری 1947 میں انسانی حقوق کمیشن تشکیل پایاجس کے بعد 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کے بعد 10دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن قرار دیا گیا۔ انسانی حقوق کے اعلامیہ کو جاری ہوئے عرصہ گذرچکا ہے جس کا مشترکہ مقصد دنیا کے ہرانسان کیلئے آزادی کی نعمت اورظلم و ناانصافی نیز ہر طرح کے امتیازی سلوک سے نجات تھا تاہم انسانی حقوق کی فراہمی کا معاملہ اب صرف ایک سیاسی نعرے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی حقوق کی حمایت ایک گرانقدرکام ہے لیکن ایسے وقت میں نہیں جب انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹیں مغرب کیلئے ایک سیاسی ہتھکنڈے میں تبدیل ہو گئی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت انسانی حقوق کامسئلہ دوسرا رخ اختیارکرچکاہے اوراسی وجہ سے دنیا کے بہت سے ممالک انسانی حقوق کی بعض شقوں میں تبدیلی کے خواہاں اور انھیں بطور ہتھکنڈہ استعمال کئے جانے کیخلاف ہیں۔ ماہرین کے مطابق انسانی حقوق کی عالمگیریت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک گروہ کا طرز فکر تمام قوموں پر مسلط کر دیا جائے بلکہ اس کا مطلب تمام قوموں اورثقافتوں کے حقوق کی منصفانہ ضمانت دینا ہے جبکہ امریکا اور مغربی ممالک انسانی حقوق کے نام پر اپنا نظریہ اور ثقافت دنیا پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ انسانی حقوق کی قانونی دستاویزات کا مختلف ثقافتوں بالخصوص ڈیڑہ ارب سے زیادہ انسانوں کے دین اسلام کی ثقافت سے عاری ہونا بھی ایک امتیازی رویہ ہے اوراسی وجہ سے آج امریکہ اور بعض مغربی حکومتیں اس سے ناجائزہ فائدہ اٹھارہی ہیں اور اسے اسلام سے دشمنی کیلئے ہتھکنڈہ بنائے ہوئے ہیں۔

دنیا بھر کے مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ انسانی حقوق کی دستاویزات، اصول و قوانین اور میکانیزم میں ان کی دینی تعلیمات کو مدنظر رکھا جائے اور خاص طور پر اقوام متحدہ کایہ فرض بنتاہے کہ وہ انسانی حقوق کی آڑ میں امریکا اور مغربی ممالک کی جانب سے شروع کردہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی حمایت ترک کرکے دنیا بھر کے انسانوں کیلئے انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے۔جن مغربی ممالک نے منشور حقوقِ انسانی کی داغ بیل ڈالی تھی، آج وہی ممالک حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ چنانچہ آئے دن ان ممالک میں جرائم پیشہ افراد کی شرح میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ مفکرین و مدبرین نے اس کے بہت سے اسباب متعین کیئے ہیں لیکن حقوق انسانی پر ڈاکہ زنی کا بنیادی سبب ان انسانی حقوق کے نفاذ کیلئے کسی داخلی قوتِ نافذہ کا فقدان ہے، علاوہ ازیں مغرب کے حقوق انسانی کا فلسفہ صرف اس کے مفادات کے اردگرد گھومتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حقوقِ انسانی ایک نظریہ بن کر رہ گیا، جس کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن محمد عربی صلی ا? علیہ وسلم نے حقوقِ انسانی کے صحیح نفاذ اور ان کو عملی زندگی سے مربوط کرنے کے لیے فکر آخرت سے جوڑدیا جس کے باعث بندوں کے اندر حقوقِ انسانی کی رعایت وحفاظت کی ایسی اسپرٹ پیدا ہو گئی کہ بندہ از خود حقوق انسانی کا محافظ بن جاتا ہے۔

Mohammad Siddiq Madani

Mohammad Siddiq Madani

تحریر : محمد صدیق مدنی۔ چمن