تحریر: محمد ذوالفقار 10 دسمبر کو ہر سال کی طرح اس دفعہ بھی پوری دنیا میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا گیا۔اس دن کو منانے کا مقصد پوری دنیا میں انسانیت کے اس پیغام کو پہنچانا ہے تاکہ انسانوں کے حقوق کا خیال رکھا جاسکے۔اگر بات انسانیت کی کی جائے تو یہ کہنا غلط نا ہو گا کہ دنیا میں آج تک سب سے زیادہ حقوق جس مذہب نے دیئے ہیں وہ صرف اسلام ہے۔جن حقوق کی بات آج دنیا کر رہی ہے ۔آج سے تقریبا چودہ سو سال پہلے ہمارے پیارے نبی ۖنے ان حقوق کا تذکرہ کیا۔ناکہ صرف تذکرہ کیا بلکہ اگر یوں کہا جائے تو یہ کہنا غلط نا ہو گا کہ حقیقی معنوں میں انسانیت کا درس دیا۔ زمانہ ء جاہلیت کے دور میں جب ہر طرف تاریکی ہی تاریکی تھی آپۖروشنی کی نوید لے کر آئے۔
جب لوگ بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیتے تھے پہلی بار اس کے خلاف آپۖ نے آواز بلند کی۔اور آج کی اس عورت کو عظیم عورت بنانے میں اسلام کا سب سے اہم کردار ہے۔جو عورت کل تک زندہ درگور ہوتی تھی آج وہ اگر بیٹی ہے تو رحمت اور اگر ماں ہے تو جنت بن جاتی ہے۔یہ سب حقوق اسلام کی مرحون منت ہیں ۔انسانیت کا مطلب حقیقی معنوںمیں اسلام نے ہی سکھایا ہے۔اس کا ایک مظہر ہجرت کا وہ دور تھا جب آپۖنے مکہ سے مدینہ کے لیئے ہجرت کی تھی۔جس وقت صحابہ کرام اپنا سب کچھ چھوڑ کر مدینہ پہنچے تو اس وقت انصار مکہ کے حسن سلوک کی نظیر نہیں ملتی۔ اور انصاری صحابہ نے اپنے گھر کے دروازوں کے ساتھ ساتھ اپنے دل کے دروازے بھی کھول دیئے۔یہاں تک کہ جس کے پاس جتنی دولت تھی اسکا آدھا اپنے مہاجر بھائی کو دے دیا۔
Hazrat Muhammad PBUH
اسی طرح اگر ہمسائے کی بات کی جائے تو آپۖ اکثر فرمایا کرتے کہ جس طرح اللہ نے ہمسائے کے حقوق کا خیال رکھنے کا حکم دیا کبھی کبھی تو احتمال ہونے لگتا کہ کہیں ہمسائے کا بھی وراثت میں حصہ نا رکھ دیا جائے۔یہ وہی دین ہے جس نے ذات پات،چھوت اچھوت کا تصور ہی ختم کر دیا ہے۔اور سب کو مساوات کا درس دیا ہے۔جس کی مثال خطبہ حجتہ الوداع سے ہمیں ملتی ہے جس میں آپۖ نے فرمایا؛کسی عربی کو کسی عجمی پر،کسی عجمی کو کسی عربی پر،کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔تم سب برابر ہو ہاں اگر کوئی تم میں سے بہتر ہے تو اس کی بنیاد تقویٰ ہے۔
اسی طرح اگر صحابہ کرام کی بات کی جائے تو وہ بھی انسانیت کے علمبردار تھے۔جس کی ایک مثال حضرت عمر کا دور خلافت ہے۔جب آپ رات کو گشت کرتے تھے تاکہ جان سکیں کہ کہیں ان کی رعایا کسی پریشانی کا شکار تو نہیں۔ایک دفعہ آپ رات کو گشت کر رہے تھے کہ اچانک ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آواز آئی۔دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ بچے بھوک کی وجہ سے رو رہے ہیں۔اسی وقت واپس آئے اور بیت المال سے راشن کی بوری اپنے کندوں پر اٹھا کر لے جانے لگے تو غلام کہنے لگا ۔یا امیرالمومنین آپ یہ مجھے دے دیجیئے۔ جس پر آپ نے فرمایا آج تو تو میرا یہ بوجھ اٹھا لے گا مگر کل قیامت کے دن میرا بوجھ کون اٹھائے گا۔یہ وہی عمر تھے جو اکثر کہا کرتے کہ اگر میرے دور حکومت میں کوئی کتا بھی پیاسا مر گیا تو مجھے حساب دینا ہوگا۔ اسلام نے انسانوں کے تمام حقوق کی صحیح معنوں میں ترجمانی کی ہے۔جس میں غریبوں مسکینوںکے حقوق،معذوروں کے حقوق،مریض کے حقوق،ہمسائے،رشتہ داروںکے حقوق وغیرہ شامل ہیں۔اور ان حقوق کو پورا کرنے یا نا کرنے پر سزااور جزا کا نظام بھی موجود ہے۔
Human Rights
یہ تو تھی حق کی بات ۔اب اگر آج کے دور کی بات کی جائے تو یہ عالمی انسانی حقوق کے ٹھیکے دار ذرہ اپنے قول و فعل پر نظر دوڑائیںتو ہمیں پتہ چل جائے گا کہ یہ انسانی حقوق کے نام پر کس طرح لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اگر بات صرف اقوام عالم کی کی جائے تو کونسا ایسا ملک ہے جہاں انسانیت کی تذلیل نہیں ہو رہی۔حالیہ دنوں میں پیرس میں ہونے والا واقعہ کیا انسانیت سوز نہیں تھا۔اور پھر جو لوگ اس واقعے کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک رواہ رکھے ہوئے ہیں ۔کیا وہ انسانیت کے ذمرے میں آتا ہے؟ابھی روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس وقت کہاں تھی انسانیت۔یا پھر جب اسرائیل جب فلسطین کے نہتے مسلمانوں پر چڑھ دوڑتا ہے اس وقت انسانیت کو کیا ہو جاتا ہے۔اور ابھی تو پچھلے ذخم بھرے نہیں تھے کہ شام میں جو خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے کیا یہ انسانیت کے ذمرے میں آتی ہے؟اور اگر مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو افغانستان سے لے کرعراق تک اور پھر عراق سے لے کر فلسطین ،روہنگیائ، کشمیر، بوسنیائ، چیچنیا،اور اب شام تک یہ تمام داستانیں اقوام عالم کی انسانیت پسندی کا منہ بولتاثبوت ہیں۔اور ان نام نہاد جنگوں میں مارے جانے والے بے گناہ لوگوں کو تو اس بات کا بھی پتہ نہیں کہ وہ کس جرم کی پاداش میں مارے جا رہے ہیں۔مگر اس سب کے باوجود وہ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو معذرت کے ساتھ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ کس منہ سے یہ بات کر رہے ہیں؟
اب اگر بات کی جائے وطن عزیز کی ۔تو دوسرے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی یہ دن بڑے پرتپاک طریقے سے منایا گیا۔اور اس سلسلے میں مختلف قسم کی تقریبات کا بھی اہتمام کیا گیا۔اور ہر قسم کے بھاشن بھی سننے کو ملے۔اور مختلف قومی اخبارات میں اس دن کے حوالے سے پیغامات بھی شائع کروائے گئے۔اور میری حیرت کی انتہاء تو تب ہوئی جب ایک اخبار کا پورا صفحہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سائیں قائم علی شاہ کے پیغام سے بھرا ہوا تھا۔آج تو ایسے لگ رہا تھا جیسے شائد ان سے بڑا انسانیت پسند کوئی ہے ہی نہیں۔کاش کہ یہ انسانیت اس وقت جاگ جاتی جب تھر میں بچے بھوک اور پیاس کی وجہ سے مر رہے تھے۔یا پھر جب کراچی میں لوگ ہیٹ سٹروک کی وجہ سے مر رہے تھے اور ایشیاء کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس بھی لاشیں اٹھانے کے لئے کم پڑ گئی تھی۔اور کراچی کے قبرستان بھی مردوں کو دفنانے کے لیے میسر نہیں تھے۔
ان کی انسانیت پسندی کا اندازہ تو اسوقت ہو گیا تھاجب سکھر سے قبلہ حضرت اپنا قافلہ لے کر روانہ ہو رہے تھے تو راستے میں ایک گدھا گاڑی والا آگیا تھا۔جس کا جو حشر کیا گیا تھا سارے میڈیا نے دکھایا تھا۔اگر مجموعی ملکی صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔تو اسوقت پورے ملک کی تقریبا ساٹھ فیصد آبادی خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔جس کو اگر سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ وہ لوگ ہیں جن کو بنیادی سہولیت بھی میسر نہیں۔جن میں تعلیم،صحت اور مناسب روزگار۔اسی طرح ہماری آبادی کا بہت بڑا حصہ پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہے۔جس میں کراچی سر فہرست ہے ۔جس کو چھوٹا پاکستان کہا جاتا ہے جسکی تقریبا نصف آبادی پینے کے پانی سے محروم ہے۔اگر انسانی حقوق کی بات کی جائے تو یہ حقوق حقیقی آزادی کی مرحون منت ہیں۔ایسی آزادی جس میں ہر شہری قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مذہبی،سماجی،سیاسی ومعاشی اورمعاشرتی فرائض سرانجام دے سکے۔اور اگر تو یہ سب حقوق پاکستان کی عوام کو میسر ہیں تو پھر تو حق بنتا ہے کہ یہ انسانی حقوق کی بات کریں اور اگر ایسا نہیں ہے تو میں بطور طالبعلم صرف اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ انسانی حقوق کی بات یہ کس منہ کے ساتھ کرتے ہیں؟؟؟