انسان کو رب کائنات نے اشرف المخلوقات بنایا ، جس کا آسان الفاظوں میں مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات میں جتنی بھی مخلوق ہیں انسان ان سب سے افضل اور بہتر ہے اللہ نے انسان کو عقل دی ، شعور دیا ، اس بات سے انکار تو کوئی نہیں کر سکتا کہ انسان کو دنیا میں لانے کا مقصد رب کائنات سے بہتر کوئی نہیں جا نتامگر آج ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ کیا کر رہا ہے یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، آج ایک انسان ہی دوسرے انسان کا دشمن ہے،رشتے داروں ، عزیز و اقارب میں حسن سلوک دور دور تک نظر نہیں آتا، بھائی بھائی کا دشمن بنا ہوا ہے۔
ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں اور اگر کوئی اپنا عزیز ، رشتہ دار کسی دکھ ، بیماری یا تکلیف میں ہے تو اس کی مدد کرناتو دور کی بات اس کا حال احوال پوچھنے تک کوئی نہیں جاتا، گزشتہ کئی سالوں سے پوری دنیا میں 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے ، اس دن کو منانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ دنیا میں انسانی حقوق کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان پر ہونے والے مظالم پر آواز اٹھائی جاسکے جبکہ افسو س کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں تو کبھی کبھی ایسالگتاہے کہ انسانی حقوق کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے ، نفسانفسی کے اس عالم نے ہ میں بے حس بنا دیا ہے جبکہ دین اسلام ہ میں انسانی حقوق کو مکمل ایمانداری کے ساتھ نبھانے کا درس دیتا ہے لیکن ہم ایک ایسے بے حس معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں ہر وقت انسانی حقوق پامال ہو رہے ہوتے ہیں۔
دور حاضر میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی قرارداد کی رو سے ہر انسان کو بنیادی حقوق حاصل ہیں ، جس میں جینے کے حقوق، آزادی، اظہار رائے، بنیادی سہولیات سمیت تمام وہ حقوق جو کہ ایک عام انسان کی زندگی کے لیئے بنائے گئے وہ سب کو بناکسی امیر یا غریب کے فرق کیے حاصل ہونے چاہیئے، پوری دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں پر انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے ، اور کھلے عام کی جارہی ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈنکے کی چوٹ پر کی جارہی ہے، ہمار ا پیارا ملک پاکستان جو کہ ایک اسلامی ریاست ہے ، جو کلمہ کے نام پر معرض وجود میں آیا، دنیا میں انسانی حقوق کی بنیاد مذہب اسلام سے شروع ہوئی ، پوری دنیا میں انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہما را مذہب اسلام ہی ہے۔
اسلام نے ہی تمام انسانی حقوق کو اجاگر کیا جس میں عورتوں کے حقوق، ماں باپ، بہن بھائی، عزیز رشتہ دار، پڑوسیوں کے حقوق، غرض حقوق العباد میں سب ہی چیزیں شامل ہوگئیں ، رب کائنا ت نے فرمایا کہ میں اپنے حقوق تو معاف کردونگا لیکن حقوق العباد معاف نہیں کرونگا، اس بات سے ہ میں انسانی حقوق کی اہمیت کا انداز ہ ہوجا نا چاہیے کہ وہ ہستی جو خالق کائنات ہے مالک کائنات ہے اس نے کہہ دیا کہ حقوق العباد یعنی انسانی حقوق میں کوئی کوتاہی نہ برتو، آج ہمارے ملک میں ہر جگہ انسانی حقوق کی پامالی دیکھنے کو ملتی ہے ، جب ہم مسلمان ہی انسانی حقوق کی پاسدار ی اور ان پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں کر سکتے یا نہیں کرپا رہے تو دیگر مذاہب کے لوگوں سے بھی کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے ، ہمارے پیغمبروں ، نبیوں ، ولیوں اورتمام علمائے دین نے انسانی حقوق کے لیئے محنت کی کاوش کی اور معاشرے کو بتایا کہ تمام انسان ایک جیسے ہیں کسی ایک انسان کو دوسرے پر برتری حاصل نہیں ، اس وقت مغربی معاشرے نے جو اصول اپنا رکھے ہیں وہ در حقیقت اسلام کے وضع کردہ بنیادی انسانی حقوق ہیں ، ہمارے نبیوں نے انسانی حقوق کو پور ا کرنے اور معاشرے میں امن و عدل کے قیام کے لیئے کوششیں کیں ، لیکن افسوس کی بات ہے کہ انسانی حقوق کو وضع کرنے والے مذہب اسلام کو ماننے والے مسلمان ہی اس وقت انسانیت کے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔
پوری دنیا میں اس وقت اقوام متحدہ اپنے آپ کو انسانی حقوق کا بڑا ٹھیکیدار سمجھتاہے اور کہتا ہے اور کسی بھی ملک کو اقوام متحدہ کے رکن ممالک اور انسانی حقوق کے چارٹر پر دستخط کرنے والے ممالک پر یہ لازم ہے کہ اپنے شہریوں کا تمام بنیادی انسانی حقوق فراہم کرے ا ور ایسا نہ کرنے والے ملک کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ وہ انسانی حقوق کے دستخط کردہ چارٹر پر مکمل عمل درآمد نہیں کر رہا ہوتا، لیکن یہ لعن طعن بھی صرف زبانی ہی ہوتی ہے، آج تین ماہ سے زیادہ بیت گئے بھارت کی جانب سے کشمیر میں کرفیو لگا کر انسانی حقوق کی جو پامالی کی جا رہی ہے وہ کسی کو نظر نہیں آرہی ،فلسطین میں ہونے والے انسانی حقوق کی پامالی پر کیوں سب کو سانپ سونگھ گیاہے، شام ، افغانستان، عراق،یمن، سمیت دیگر مسلم ممالک میں ہونے والی انسانی حقوق کی سرعام پامالی عالمی برادری سمیت مسلم امہ کی خاموشی بھی لمحہ فکریہ ہے، مردہ ضمیر قو میں ہمیشہ زوال کی جانب بڑہتی ہیں اور وہ معاشرے جہاں انسانیت ختم ہوجائے وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے۔
آج کے دن پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی انسانی حقوق پر سیمینار، ریلیاں اور مختلف کنونشن تو ضرور ہونگے لیکن یہ ساری باتیں اور کام صرف میڈیا کودکھانے کی حد تک ہونگے لیکن عملی طور پر اس کا مظاہر ہ کہیں نہیں ہوگا اور حقوق کی یہ جنگ اس ہی طرح چلتی رہے گی،کیونکہ معاشرے میں بگاڑ ہمیشہ تب اور وہیں پیدا ہوتا ہے جہاں انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے ، ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں اس معاشرے میں انسانی حقوق دور دور تک نظر نہیں آتے اور نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جس میں انسانیت روزانہ کی بنیادوں پر ختم ہوتی جارہی ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے پوری قوم کے لیئے۔