تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا ہماری خوش قسمتی اللہ پاک نے ” پاکستان ” جیسی انمول نعمت سے سرفراز کیا۔ جس کا جتنا بھی شکر اد کیا جائے کم ہے۔ پاکستان بھی صحت جیسی ایک عظیم نعمت ہے۔ جس طرح صحت کا خیال نہ رکھا جائے تو صحت بگڑ کر ” موزی لاعلاج اور سرطان کی شکل اختیار کر لیتی ہیں ، انسانی صحت کی طرح آزادی بھی قدر کا انمول تحفہ ہوتا ہے۔ آزادی کی قدر غلام کی جانتے ہیں ، ہماری بدبختی کہ ہم جسمانی طور پر تو آزاد ہوئے مگر دماغی طور پر غلام ہی رہے، جس کی بہت سی وجوہات میں دو کو خاص اہمیت حاصل ہیں، ایک جاگیردار یا سرمایہ دارانہ نظام جبکہ دوسرا حکمران اور انتظامیہ کا عام عوام کو ” دوسری مخلوق تصور کرنا”یعنی عام عوام کو غلام رکھ کر حکمرانی کرنا، پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی 70% آبادی دیہاتوں میں ہیں ، آزادی کے ساتھ ہی زمیندار طبقے نے غیر زمیداروں کو ” غلام ” تصور کر کے خود کو اعلیٰ سمجھ لیا۔
غیر زمیندار لوگ ہنرمند اور محنتی تھے جب پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی مرحوم زوالفقار علی بھٹو نے عام پاکستانیوں کے لئے ” بیرون ممالک روزگار ” کے مواقعے پیدا کئے تو ” وطن عزیز میں پیسے کی آمد ” بڑھ گی۔ جس سے معیار زندگی بلند سے بلند ہونے لگا۔ لوگوں کا رجحان ملازمتوں سے ہٹ کر بیرون ممالک کی طرف بڑھتا گیا،بس دیکھا دیکھی بیرون ممالک جانے اور بجھوانے والوں کی ایک فوج تیار ہونے لگی۔ ایجنٹ سسٹم متعارف ہونے لگا ۔ لوگوں کو جوق در جوق ” قانونی اور غیر قانونی ” طریقے سے بھجوانے لگے ، گنتی کے دو چار نہیں بلکہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ غیر قانونی طریقوں سے مختلف ممالک میں داخل ہوئے اور کچھ راہوں میں ہی نا کام ہوئے اور کچھ سردی و گرمی کی تپش برداشت کر کے کامیاب ہوئے اور کچھ بہتہی کامیاب ٹھہرے یہاں تک کہ بیرون ممالک تجارت، اور سیاست میں ملک وقوم کا نام روشن کر گئے۔
دنیا جانتی ہیں کہ کراچی سے بنکاک اور بنکاک سے سمندری راستے سے فرانس جعلی دستاویزات سے انسانوں کو سمگل کیا جاتا ہے۔کراچی سے ایران، کوئٹہ سے ایران پھر وہاں سے ترکی کے شہر استنبول جہاں سے ایجنٹوں کی زبان میں ڈینکی یعنی غیر قانونی طریقے سے یونان جانا جس میں کئی میل راتوں کو پیدل چلنے کے علاوہ کشتیوں، لانچوں سے یونان داخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں کافی افراد ڈوب کر بھی مر جاتے ہیں کچھ بارڈر سیکورٹی کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ زندہ بچ جائیں تو غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے کے جرم میں حوالات میں بے یارو مددگار بند کر دئیے جاتے ہیں۔ اگر کو ئی قسمت سے منزل تک پہنچ بھی جائے تو ایک دوسرے درجے کے شہری یا معزز غلام کی زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔نیروبی سے قاہرہ پھر وہاں سے پیدل یونان کا سفر بھی انسانی سمگلروں نے کافی دیر سے دریافت کر رکھا ہے۔ روٹس اور طریقہ کار کمپیوٹر کی ونڈوکی طرح نئے سے نئے متعارف کیے جاتے ہیں۔ بیرون ممالک میں لاکھوں ایسے افراد بھی مقیم ہیں جن کا اندراج اس ملک میں سرے سے نہیں۔ کام کا جھانسہ دے کر ان کو بیرون ممالک لایا جاتا ہے پھر ان کو غلام بنا کر مقید کر لیا جاتا ہے۔
عورتوں کو جسم فروشی میں لگا دیا جاتا ہے، بچوں سے بھی مشقت لی جاتی ہے۔گزشتہ دنوں حج اور عمرے کے نام پر بھی عورتوں کو جسم فروشی کے لیے بھیجے جانے کا انکشاف ہوا۔ برطانیہ میں امیگریشن کا ادارہ اتنا فعال نہیں اور کام کے مواقع یورپ کے ممالک سے زیادہ ہیں اور سہولیات بھی کافی ہیں جس کی وجہ سے یورپ کے راستے غیر قانونی طور پربرطانیہ داخل ہونے کا رجحان بھی عام ہے۔ اس کام میں اکثر کنٹینر یا ٹرک ڈرائیور انسانی سمگلنگ کرتے ہیں۔ موجودہ وقت میں 1500پونڈز فی کس کے حساب سے بارڈر کراس کرنے کا ریٹ ہے۔ کچھ برس قبل ہالینڈ سے ٹماٹر لانے والا کنٹینر ڈوور DOWERکی بندرگاہ پر روکا گیا۔ جب ٹرک کا عقبی دروازہ کھولا گیا تو ٹماٹروں کی پیٹیوں کے ساتھ 60چائنیز بھی موجود تھے بدقسمتی سے ان میں سے 58افراد آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے مر چکے تھے صرف 2افراد کو نیم بے ہوشی کی حالت میں ملے۔لانچوں اور کشتیوں کے ذریعے بارڈر کراس کروانے میں اکثر اوور لوڈنگ کی وجہ سے حادثات پیش آئے ہیں۔ یورپی یونین میں مشرقی یورپ کے ممالک شامل ہونے سے قبل مشرقی یورپ سے بھی ٹرک اور ٹرالوں میں انسانی سمگلنگ عروج پر رہی۔ 2سے 3دن ٹرکوں کے خفیہ خانوں میں چھپ کر صرف چنوں اور پانی کی ایک چھوٹی بوتل کے سہارے سفر کروایا جاتا، رفع حاجت کے لیے بھی باہر نہیں نکالا جاتا تھا بلکہ اس مقصد کے لیے بھی مخصوص برتن دیا جاتا تھا۔
بلوچستان کے سرحدی علاقے انسانی سمگلنگ کی ایسی گزر گاہ ہیں جہاں سے ماہانہ دس ہزار افراد ایران اور ترکی کے راستے یورپ جانے کے خواب آنکھوں میں سجائے اس گھناؤنے کاروبار کا حصہ بن جاتے ہیں۔ سمگلرز کا ایجنڈا معصوم افراد کو ورغلا کر 1 سے پانچ لاکھ روپے کے عوض ان کی جانوں کو ایسے خطرے میں دھکیلنا ہوتا ہے کہ جہاں سے واپسی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔
ستمبر 2016ء میں 3 ہزار 7 سو 76 جبکہ اکتوبر میں 4 ہزار 4 سو 72 اور نومبر میں 2 ہزار 3 سو 39 افراد انسانی سمگلرز کے شکار بن کر سرحد پار پہنچے مگر ایران اور ترکی کی جانب سے ڈی پورٹ کر دیئے گئے۔ مگر ان افراد میں سے اکثر تفتان بارڈر پر ہی معمولی جرمانے دے کر پھر سے ایجنوں سے رابطہ کر لیتے ہیں۔ اکتوبر اور نومبر 2016ء میں سکیورٹی اداروں نے 15 سو افراد کو گرفتار کیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے دن کے ساتھ رات ، اچھائی کے ساتھ برائی، قانونی کے ساتھ غیر قانونی قانون قدرت ہیں ، پاکستان کی بقا سلامی اور عزت کے لئے ضروری ہے کہ جس طرح معالجین کو رجسٹرڈ کیا جاتا ہے ان کی تعلیم ، طریقہ علاج کے تحت، مساجد کو رجسٹرڈ کیا جاتا ہیں ان کے مسالک کے تحت ، دودھ دھی ، بیکری ، کریانہ ، میڈیکل سٹورز ، اور وکلائکو رجسٹریشن کے بغیر کام نہیں کرنے دیا جاتا اسی طرح ایجنٹوں اور ان کے سب ایجنٹوں کی رجسٹریشن لازمی قرار دی جائے، اور ایجنٹوں کا مکمل ڈیٹا کی چھان بین کو یقینی بنایا جائے، اور عام لوگوں کو آگاہی دی جائے تا کہ لوگ ” زندگی بھر کی جمع پونجی ”لوٹانے سے بچ سکیں اور اگر کسی کو کوئی ” نوسرباز ” لوٹنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو اس سے واپسی ممکن ہو سکے۔
ایجنٹ اور سب ایجنٹ غیر قانونی کام کرنے والے بھی ” قانونی چھتری” کا استعمال کرتے ہیں تا کہ اپنا شکار محفوظ بنایا جا سکے، ہماری سادہ ، ان پڑھ قوم پر رحم کھایا جائے اور غیر قانونی ایجنٹ مافیا کے خلاف جعلی پیروں کی طرح کریک ڈاؤن کیا جائے ۔ تا کہ ملک عزیز کا وقار اور بلند ہو سکے،پڑھے لکھے نوجوان سہانے مستقبل کے لئے دوسرے ممالک کے غیر قانونی بارڈر کراس کرتے ہوئے ” بے موت ” مر نہ سکیں۔