اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستانی لڑکیوں سے شادی کر کے انہیں ’جنسی غلامی میں دھکیلنے‘ کی خبروں نے ملک بھر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ چینی شہریوں کے لیے نہ صرف ویزا پالیسی پر نظرثانی بلکہ ان کی سخت نگرانی کے مطالبات بھی کیے جا رہے ہیں۔
ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان کو مجموعی طور پر چینی شہریوں کے حوالے سے پالیسی کو بدلنا چاہیے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں۔ واضح رہے کہ پاکستان کی فیڈرل انویسٹی گیسشن ایجنسی، جسے ایف آئی اے بھی کہا جاتا ہے، نے حالیہ ہفتوں میں متعدد چینی شہریوں اور ان کے مقامی ایجنٹوں کو گرفتار کیا ہے۔ ان پر یہ الزام ہے کہ وہ پاکستانی لڑکیوں سے جعلی شادی کر کے انہیں چین لے جا کر ’جسم فروشی پر مجبور‘ کرتے تھے جب کہ ان لڑکیوں کو ان کے ’جسم کے اعضاء نکالنے‘ کی بھی دھمکی دی جاتی تھی۔
انسانی اسمگلنگ کی اس خبر سے ملک کے کئی حلقوں میں اشتعال پایا جاتا ہے اور ان کے خیال میں چینی شہریوں کو ’آزادی دینے‘ کی وجہ سے ملک کو یہ دن دیکھنے پڑے ہیں۔ کئی حلقے حکومت کی ویزا پالیسی پر خصوصاﹰ سخت ناراض ہیں اور وہ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت ان واقعات کے بعد فوری طور پر اپنی ویزا پالیسی پر نظرِ ثانی کرے۔
پاکستانی ایوان بالا کے رکن اور نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر محمد اکرم بلوچ کا کہنا ہے کہ نہ صرف ویزا پالیسی تبدیل ہونی چاہیے بلکہ پاکستان کو چینی افراد کے حوالے سے پالیسی کو مجموعی طور پر بدلنا چاہیے،’’ایسا لگتا ہے کہ ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ وہ جہاں چاہتے ہیں گھومتے پھرتے ہیں۔ جن پاکستانیوں نے چینی مسلمان خواتین سے شادیاں کی ہیں، ان پر بیجنگ نے کئی طرح کی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔ لیکن یہاں چینی ہر جگہ آزادی سے گھومتے پھرتے ہیں۔کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں۔ یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں بھی اس مسئلے پر کوئی بحث نہیں ہو رہی۔‘‘
ایف آئی اے نے چینی افراد کو گرفتار کر کے مقدمات تو قائم کر دیے ہیں لیکن پاکستان میں کئی حلقے یہ خیال کرتے ہیں بیجنگ اور اسلام آباد کی قربت کے باعث ان افراد کو سزا ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اکرم بلوچ اس خدشے سے اتفاق کرتے ہیں،’’ماضی میں کئی غیر ملکیوں کو جرائم کے ارتکاب کے بعد چھوڑا گیا، تو پھر یہ تو چینی ہیں۔ ان کو سزائیں دینا مشکل ہو گا اور اگر سزائیں ہو بھی گئیں تو میرا خیال ہے کہ انہیں معاف کر دیا جائے گا۔ تاہم میری اپنی رائے میں حکومت کو بغیر کسی خوف اور دباؤ کے اس جرم کا ارتکاب کرنے والے افراد کو سزائیں دینی چاہئیں۔‘‘
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ یہ واقعات اس بڑے طوفان کی طرف ایک اشارہ ہیں، جو چینی افراد پر پابندیاں نہ لگانے کی صورت میں نمودار ہو سکتا ہے۔ ان کے خیال میں ملک میں ’چین کی مداخلت‘ بہت بڑھتی جا رہی ہے۔ گلگت وبلتستان کی قانون ساز اسمبلی کے رکن نواز ناجی کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد چینی لوگوں کی دوسرے امور میں مداخلت کے حوالے سے بھی سوچنا چاہیے، ’’میری اطلاعات یہ ہیں کہ وہ گلگت بلتستان میں مقامی ایجنٹوں سے مل کر پہاڑ اور جائیدادیں خرید رہے ہیں۔ اور جو لوگ ان غلط کاموں کی نشاندہی کر رہے ہیں، ہماری سرکار انہیں غدار کہہ رہی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ صرف ویزا پالیسی پر نظر ثانی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہمیں چینی شہریوں کی تمام حرکات وسکنات پر نظر رکھنی چاہیے۔ کیوں آتے ہیں؟ کہاں ٹھہرتے ہیں؟ کس طرح کا کاروبار کرتے ہیں؟ کونسے مقامی افراد ان کے ساتھ ہیں؟ اگر ہم ان تمام باتوں پر دھیان نہیں دیں گے تو پھر ہمارے ہاتھ سے بہت کچھ نکل جائے گا۔‘‘
فری ویزا پالیسی کے حوالے سے خدشات کو حکا م بھی صحیح قرار دیتے ہیں۔ وزراتِ داخلہ کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’گزشتہ سات برسوں میں سب سے زیادہ ویزے چینی اور افغانیوں کو دیے گئے ہیں۔ افغانیوں کے تو پاکستان میں بہت سے رشتہ دار ہیں لیکن چینیوں کا اتنی بڑی تعداد میں آنا خاصا حیران کن ہے۔ میرے خیال میں فری ویزا پالیسی بھی اتنی بڑی آمد کی ایک وجہ ہے۔‘‘
پاکستان میں کئی تاجر یہ شکوہ کرتے رہے ہیں کہ چین پاکستانی تاجروں کو وہ سہولیات نہیں پہنچا رہا، جو چینی تاجر یہاں حاصل کر رہے ہیں۔