تحریر : رائو عمران سلیمان ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اندر یا ملک سے باہر روزانہ کی بنیاد پر150کے قریب لڑکے لڑکیوں کی تجارت ہورہی ہے،جبکہ بہلاپھسلا کر مریضوں اور تندرست لوگوں کے گردے اور دیگر اعضاء کی اسمگلنگ بھی اسی شعبے کا حصہ ہے ، ہمارے ملک میں ایسے جعلسازوں کے دفاتر باآسانی ڈھونڈے جاسکتے ہیں اس قسم کے کاروبار سے مقامی پولیس لاعلم رہے ایسا نہیں ہوسکتا ؟یقینا اس قسم کے دھندے ساجھے داری کے ساتھ ہی چل سکتے ہیں،ویزے پاسپورٹ اور دیگر قانونی مراحل کے بغیر یورپین ملکوں میں بھجوانا بھلا کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔؟ پاکستان کی پارلیمنٹ اس قسم کے دھندوں کو روکنے کے لیے کبھی کبھار جوش میں آجاتی ہے 2002 میں بھی میڈیا کی زینت بننے کے لیے اس گھنائونے کاروبار کو روکنے کے لیے حکومت نے ایک آرڈیننس پاس کیا تھا،مگر حالیہ واقعات نے یہ ثابت کردیاہے کہ وہ بل ابھی تک قانون کا حصہ ہی نہ بن سکا ہے۔
مطلب جب اس قسم کے دھندوں کے لیے قانون ہی نہیں تو پھر عمل کیسا۔ جس ملک کے حکمرانوں کی اپنی ہی توجہ لوٹ مار کی طرف ہو وہ بھلا اپنی عوام کو لٹنے سے پھرکس طرح بچا سکتے ہیں۔گزشتہ دنوں تربت کے ویران علاقوں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے بیس کے قریب لوگو ں کو جس انداز میں قتل کیا گیا وہ آج سب کے سامنے ہے ،ان قتلوں کی ذمہ داری ان ہی ایجنٹوں پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے ان سادہ لوح لوگوں سے ایران کے راستے یورپ بھجوانے کا کہہ کر لاکھوں روپے بٹورے اور پھر راستے میںانہیں علیحدگی پسند دہشت گردوں کے سپرد کردیا گیا۔ جو لوگ اس سفر پر مارے گئے انہوںنے ان جعلسازوں کی ڈیمانڈ پر پوری کرنے کے لیے اپنا گھر بار تک بیچ دیا ہوگا اور نتیجے میں ان کو ملی تو موت ملی ،پاکستان کی آبادی میں تیس سال سے کم عمر کے لوگوں کی تعداد تقریباً پچاس فیصد آبادی کے قریب بنتی ہے،اس میں سے جو لوگ 20سے 30سال کے درمیان میں ہوتے ہیں وہ اکثر تلاش روزگارمیں سرکرداں ہوتے ہیں،اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میںامن وامان کی خراب صورتحال اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے عوام کو سخت پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔
جبکہ ہمارے ملک کا اقتصادی نظام اس قدر پستی میں جاچکاہے کہ وہ اس ملک کے نوجوانوں کے کسی کام میں نہیں آسکتا۔جس کے باعث یہ طبقہ غربت اور افلاس کا شکار رہتا ہے ایسے پریشان حال نواجوانوں کو در در کی خاک چھاننے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید پاکستان میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے ۔اس غیر یقینی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے لوگ انہیں پورپ اور امریکا میں نوکری دلوانے کا جھانسہ دیکر اپنا شکار بنالیتے ہیں یعنی اس قسم کے نوجوانوں سے لاکھوں روپے بٹور کر انہیں یورپ میں شاندار نوکری دلانے کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ اور اس طرح سے ان لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ایک ایسے سفر پر بھیج دیا جاتا ہے جس میں کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر لوگ راستوں کی صعوبتوں کو برداشت ہی نہیں کرپاتے ، صحرائوں ،پہاڑوں میں دربدر ہوجاتے ہیں ،کنٹینروں میں دم گھٹنے سے مرجاتے یا پھر سمندر برد کردیئے جاتے ہیں جبکہ راستے میں پڑنے والے ممالک کی سیکورٹی یا ڈاکوئوں کے ہتھے چڑھ جائیں تو مار دیئے جاتے ہیں ، غالباً دو یا چار فیصد لوگ ہی اپنے اصل مقام پر پہنچ پاتے ہیں۔ جہاں جاکر غیرقانونی ہونے کے باعث ان کے لیے نوکریاں حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے یہاں بھی ان نوجوانوں کو کچھ ایسے ایجنٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کم مزدوری پر چوری چھپے انہیں نوکری دلوادیتے ہیں۔ جہاں اس قدر پڑھے لکھے یاہنر مند لوگوں کو جھاڑو مارنے یا پھر ٹرکوں میں سامان لوڈ کرانے جیسی ڈیوٹیاں دینی ہوتی ہیں ،یہ یقیناً وہ لمحہ ہوتا ہے جب ان نوجوانوں کو احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے نادانی میں کس قدر مشکلات اور زلت کاراستہ اختیار کیا تھا۔
میرا ماننا ہے کہ ترقی کرنا کوئی بری بات نہیں ہے مگر اس ترقی کے لیے آپ کو ملک سے باہر ہی جانا پڑرہاہے توانہیں قانونی انداز میں ویزہ حاصل کرکے ان ممالک میں جانا چاہیے نہ کہ یورپ میں غیر قانونی تارکین وطن کی سی زندگی گزاری جائے، یعنی انہیں انسانی اسمگلروں سے خود کو بچاکر رکھنا چاہیے اس قسم کے دھندوں میں پولیس یا دیگر متعلقہ ادارو ں کے کچھ نہ کچھ افسران کی سرپرستی ضرور شامل ہوتی ہے کیونکہ ایک ایجنٹ اکیلا اتنا بڑا کام کبھی بھی نہیں کرسکتا ان متعلقہ ادارو ں میں سارے ہی اس دھندے میں ملوث نہیں ہوتے،زکرا ن چند کالی بھیڑوں کا ہے جوزاتی مفادات اور چند روپوں کی لالچ میں ان ایجنٹوں سے مل جاتے ہیں،حکومت کو چاہیے کہ وہ ان انسانی اسمگلروں اور ان کا ساتھ دینے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرے۔
اس وقت سانحہ تربت کے جواب میں ہماری فوجیں وہاں چھپے دہشت گروں کا خاتمہ کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور اس سلسلے میں کئی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئی ہیں مگر یہ ان مسئلوں کا حل نہیں ہے اس قسم کی ہجرت کی اصل وجوہات کا حل اس ملک میں ایک اچھی طرز حکمرانی سے ہی نکالا جاسکتاہے ،جب اس ملک کی پڑھی لکھی عوام کو ایک باعزت روزگار ملے گا ا نہیں جب اپنے ملک میں امن وامان اور انصاف سمیت ایک بہترین زندگی گزار نے کے لیے امید کی کرن دکھائی دے گی تب ہی ان کے سروں سے یورپ جانے کا بھوت اتر سکے گا، پھر کیوں کوئی ان دشوار گزار راستوں پر جانے کا خطرہ مول لے گا ۔مگر آج اس ملک میں حکمرانوں کے پیدا کردہ مسائل نے عوام کے ذہنوں کو اس قدر باغی کردیا ہے اور انہیں مایوسی اور ناامیدی کی اس دلدل میں دھکیل دیا ہے جس کی وجہ سے اس ملک کا ہر دوسرا شخص پاکستان کو چھوڑ کر بھاگ جانا چاہتاہے گلی محلوں میں یہ ہی جملے سنائی دیتے ہیں” آخر کیا رکھا ہے اس پاکستا ن میں” اب عوام میں اس قسم کے خیالات کے ذمہ دار اس ملک کے حکمران ہیں یا پھر وہ لوگ جو وطن چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں روزگار ڈھونڈتے ہیں ؟ اس کا فیصلہ اب آپ نے کرنا ہے ۔ آپ کی فیڈ بیک کاانتظار رہے گا۔