تحریر : شیخ خالد زاہد رب کائنات نے انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیا ہے اور انسان ہی کو اس بات کو جاننے کا سلیقہ و ہنر بھی سکھایا کہ وہ کیسی کیسی مخلوق ہونے کے باوجود اشرف المخلوقات ہے۔ مگر حضرت انسان اس شرف کو لے کر خود ہی کو خدا سمجھنے لگ گیااور یہ سمجھنے سے قاصر ہوگیا کہ وعتصمو بحبل اللہ کیا ہوتاہے۔قدرت کی دی ہوئی عقل اور دانش کو استعمال کرتے ہوئے انسان نے دنیا کو رہنے کہ قابل بنانا شروع کیا اور آہستہ آہستہ اپنی آسائشوں کا سامان بنانے میں ایسی محارت حاصل کرلی کے آج دنیا میں ہماری آسائش کی تقریباً ہر شے میسر ہے، انسان کی چاہ ابھی ختم نہیں ہوئی اور جیسے جیسے ضرورت پڑتی ہے ایک نئی چیز سامنے آجاتی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ انسانوں نے دنیا کو بدلا اور اس بدلتے ہوئے حالات و واقعات میں ڈھلنا ہر زندہ انسان کی مجبوری بنتا چلا گیا۔ بدلتی ہوئی دنیا نے انسان کو چاند پر پہنچایا تو دوسری طرف سمندروں کی گہرائیاں بھی جاننے کی طرف راغب کیا اور اسطرح کے بے شمار کام ہوتے چلے جا رہے ہیں، انسان نے دنیا میں رہتے ہوئے کائنات کا سفر شروع کر رکھا ہے۔ نسل انسانی شعور کیلئے اب بچے کی عمر نہیں دیکھتی بلکہ بچے کی باتوں،عملی کارناموں اور اسکی چاہ سے اسکے باشعور ہونے کا پتہ چلاتے ہیں، جو کہ اپنے آپ میں سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ مختلف ادوار سے ہوتے ہوئے انسان نے مزاجوں اور رویوں پر تبدلی پر کام کرنا شروع کیا اور اس تحقیق نے انسان کواس کے معمولات زندگی کے حوالے سے مختلف حصوں میں تقسیم کردیا، جیسا کہ آپ کا کام کے وقت رویہ مختلف ہونا چاہئے،گاڑی چلاتے یا سفر کرتے ہوئے کچھ اور ہونا چاہئے، بیوی بچوں کیساتھ کچھ اور دیگر احباب کیساتھ کچھ اور، دوستوں کے ساتھ کچھ اور، یعنی آپ اپنے معمولات زندگی کو جتنا تقسیم کرینگے آپکو اتنا ہی تقسیم ہونا پڑے گا۔ یعنی پہلے انسان کے دوہرے روئیے پر ملامت کیا جاتا تھا مگر اب رویوں کی تعداد میں اضافے نے انسان کو پیشہ ور بنا دیا۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور پذیر ممالک میں عام زندگی بھی پیشہ ورانہ محارت کی محتاج ہے۔ یعنی اٹھنا، بیٹھنا، چلنا پھرنا غرض یہ کہ ہر عمل ایک ضابطہ اخلاق کا مظہر ہونا چاہئے اور وہ لوگ مسلسل اس پر عبور حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لفظ پیشہ ور معاشرے کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے۔
پچھلے ادوار میں ترقی کے ضامن محنتی افرادی قوت ہوا کرتی تھی جبکہ دور حاضر میں پیشہ ورانہ محارت رکھنے والے افراد اداروں کی ضرورت بن چکے ہیں۔ پہلے ادارے محنت کرنے والوں کی قدر کرتے تھے اورمخصوص معاوضہ محنتی لوگوں کیلئے مختص ہوا کرتا تھا، ان محنت کشوں کی ذاتی یا نجی زندگی سے اداروں کا کچھ لینا دینا نہیں ہوتا تھا۔ ہماری انفرادی ترقی کی وجہ ادارے ہوتے ہیں (جن سے ہم وابسطہ ہوتے ہیں)اور اداروں کی ترقی پیشہ ور انہ محارت رکھنے والے افراد پر منحصر ہوتی، ایسے اداروں کی ترقی ملک کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔
ہر پیشے سے وابسطہ لوگ اس پیشے سے متعلق علم حاصل کرتے ہیں اور اس پیشے سے منسلک ہوجاتے ہیں۔ دکھ اس امر کا ہے کہ وہ حاصل کردہ تعلیم اور ضابطہ اخلاق پس پشت ڈال کر اپنی طبعیت اور ادارے میں مروجہ اصولوں کے مطابق کام کرنا شروع کردیتا ہے جو کہ ادارے کیلئے نقصاں کا باعث بنے کا سبب بنتا ہے اور بہت کم لوگ اپنے پیشے کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں بلکہ عملی طور سے حاصل ہونے والے تجربے کی بدولت ان اصولوں میں مزید بہتری لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں دوسری نوعیت کے افراد کی شدید قلت ہے۔ اداروں کی ترقی اور تنزلی کا تعلق اس میں کام کرنے والے کاریگروں کی پیشہ ورانہ محارت سے مشروط ہوتی ہے۔ پاکستان میں پیشہ ور انہ محارت کا فقدان تو نہیں ہے اور نا ہی محنتی اور لگن سے کام کرنے والے کم ہیں مگر اداروں میں پیشہ ورانہ ماحول کی عدم دستیابی ہے جس کے باعث ہمارے ذہین اور قابل برین ڈرین ہو رہے ہیں یعنی لوگ ملک چھوڑ کر ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملکوں کا رخ کر رہے ہیں کیونکہ وہاں پیشہ ورانہ ماحول انکی اہلیت کا منتظر ہے۔ وہ یہاں رہ کر اپنے آپ کو ڈوبتے ہوئے جہازوں پر سوار کرنے کو قطعی تیارنہیں ہیں۔
ادارے اشتراکی ملکیت ہوتے ہیں اور ادارے کی ترقی کسی ایک فردکی وجہ سے نہیں ہوتی اور نا ہی تنزلی کا سبب کوئی ایک فرد ہوتا ہے اسکے لئے ادارے سے وابسطہ تمام افرادیا اکثریت کا ایک ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان میں اداروں کی تباہی کی ایک اہم ترین وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اداروں میں وقت کے ساتھ تبدیلی نہیں آسکی اور ہم وقت کی تیزرفتاری کا مقابلہ نہیں کرسکے، جسکی اہم وجہ یہ سمجھی جاسکتی ہے کہ پرانے لوگوں کا خیال تھا کہ اگر یہ جدت اپنالی جائے گی تو یہ تبدیلی کہیں انکے روزگار پر قابض نا ہوجائے اور انہیں روزگار سے ہاتھ دھونے پڑجائیں۔ ادارے آہستہ آہستہ تباہی کی جانب بڑھنا شروع ہوگئے اور ہم بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان اسٹیل مل وہ نفع بخش ادارہ تھا جو حکومت وقت کو ضرورت پڑھنے پر امداد دیا کرتا تھااور آج کوڑی کوڑی کا محتاج ہے۔آج اس بات کو یقنی بنانے کی ضرورت ہے کہ ادارے سے وابسطہ افراد اپنے اپنے دائرے کار میں پیشہ ورانہ محارت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کا احسن طریقے سے استعمال کریں۔ بلکل اسی طرح پاکستان کا ہر شہری اپنی تمام تر ذمہ داریاں اگر تھوڑی تھوڑی بھی نبہانا شروع کردیں تو پاکستان سے گندگی کیساتھ اور کئی دیگر چھوٹے چھوٹے مسائل حل ہوجائینگے۔اداروں میں ذاتی مفاد کے علم بردار اداروں کیلئے دیمک کا کام کرتے ہیں اور ادارے کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے۔ یہ لوگ معصوم بھی ہوتے ہیں جو بھول جاتے ہیں کہ یہ اسی شاخ کو کاٹ رہے ہوتے ہیں جس پر انکا بسیرا ہوتا ہے۔
ہمارایک اور بہت بڑا مسلۂ یہ ہے کہ ہم کسی بھی قسم کی تنقید کو ذاتی حیثیت میں دیکھتے ہیں اور اسکا رد عمل بھی بھرپور ذاتی طرح کا دیتے ہیں، اس ذاتیات کی جنگ میں ہم ادارے کی ساکھ کا بھی خیال نہیں کرتے۔جو اس بات کی گواہی ہے کہ ہم لوگ پیشہ ور انہ ماحول مرتب کرنے میں ناکام ہیں۔
بقول منیر نیازی صاحب کہ کج سانوں مرن دا شوق وی سی کج سن شہر دے لوک وی ظالم
اس شعر سے اخذ ہوتا ہے کہ ادارے سسک سسک کر اپنی موت تو مر ہی رہے تھے اس پر ہمارے سیاستدانوں نے انکا گلا دبا کر وہ سسکیا ں بھی بند کرنے کا کام سرانجام دیا، اپنی سیاست چمکانے کیلئے اور جزوقتی فائدہ اٹھانے کیلئے ضرورت سے زیادہ اور غیر ضروری بھرتیاں کسی بھی ادارے کی تباہی کا سبب بنتی ہیں۔ اداروں کی تباہی کا سارا الزام سیاستدانوں پر نہیں تھوپا جاسکتا، مگر سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ادارے میں کام کرنے والوں کے بغیر کوئی بھی ادارے کو تباہ کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔ ادارے کے ملازمین اپنے ذاتی تھوڑے سے جزوقتی مفاد کی خاطر ادارے کو نقصان پہنچاتے چلے جاتے ہیں اور ایک دن وہی ادارہ جو کبھی بہت فائدہ مند ہوا کرتا تھا بند ہوجاتا ہے۔ سیکٹروں گھروں کے چولہے بند ہوجاتے ہیں لوگ سڑکوں پر آجاتے ہیں اور یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو (وقتی فائدہ اٹھانے والے) آلہ کار بننے والے بھی ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
آج دنیا ذاتی رویوں سے نکل کر پیشہ ورانہ رویوں میں ڈھل چکی ہے اور ہمیں زندگی گزارنے کے طریقے بھی باقاعدہ سیکھنے پڑھ رہے ہیں اورانہیں سکھانے والے نا صرف انسان کی نفسیات بلکہ دیگراطوار پر بہت زیادہ تحقیق کر رہے ہیں۔ ترقی کی راہ پر گامزن اس دنیا میں ہمارا ہر وقت چاہے وہ کسی کاروباری ملاقات کا ہو یا پھر کوئی نجی تقریب کا ہم سے مخصوس رویوں کا تکازہ کررہا ہے اور یہ مخصوص روئیے جدید تعلیم کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ مخصوص رویوں سے ہماری مراد ہے کہ کام کرنے والے لوگ اپنے کاموں کی نوعیت سے کس حد تک آگاہ ہیں، وہ یہ کام کس لئے کر رہے ہیں، اس کام کے کرنے سے انہیں کیا فائدہ ہے اور کیا نقصاں یا اس ادارے کو جس میں وہ اپنی ذمہ داری نبہا رہے ہیں انکا کام کس طرح سے فائدہ پہنچا رہا ہے۔آج حفاظتی معاملات کو بھی بہت اہمیت دی جارہی ہے اور ہر فرد کو حفاظتی معاملات سے بنیادی آگاہی کو لازمی قرار دیا جا رہا ہے، کام کرنے والے کیلئے ضروری قرار طے پایا ہے کہ وہ جس کام کو سرانجام دینے کھڑا ہو رہا ہے وہ اس نوعیت کے کام کو کرنے کیلئے حفاظتی لباس اور دیگر ساز و سامان کی دستیابی کو یقینی بنانا لازمی جز قرار دیا جا چکا ہے۔ اگر آپ کسی دفتری کام پر معمور ہیں تو بھی آپ کو حفاظتی آگاہی کا ہونا بہت ضروری ہے، جیسا کہ بجلی کے شارٹ سرکٹ یا کسی بجلی سے چلنے والی مشین کے پلگ میں کوئی خرابی دفتر میں آگ لگنے کا باعث بن سکتی ہے۔
اداروں میں ختلف شعبے ہوتے ہیں یہ تمام شعبے اپنے اپنے کاموں میں اعلی کارگردگی فراہم کرنے کے ضامن ہوتے ہیں۔ ہر شعبے میں بہترین اورمیعاری ملازمین کی جانچ پڑتال اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو پرکھنے کیلئے ادارے میں ایک انہتائی اہم انسانی وسائل (ہیومن ریسورس) کا شعبہ ہوتا ہے، یہ شعبہ کسی بھی ادارے میں اندراج اور اخراج کا ذریعہ ہوتا ہے یہ شعبہ ادارے کے استحکام کا تاثر قائم کرتا ہے۔اس شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ انتہائی خوش اخلاق ہونے کیساتھ ملنسار بھی ہوتے ہیں ان عادات کو انکی اضافی قابلیت تسلیم کیا جاتا ہے، یہاں کام کرنے والے لوگ اپنے فن تحقیق ِاور پرکھ کے ماہر ہوتے ہیں۔ جدید دور میں ادارہ کتنا ہی بڑا یا چھوٹا کیوں نا ہو مگر ہر ادارے کیلئے اس شعبے کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ اس تعارف کا مقصد اس شعبے کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے، ہمارے وہ ادارے جو اب کسی حد تنزلی کی جانب پیش قدمی کررہے ہیں اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں انسانی وسائل کا شعبہ نا ہونے کے برابر اور پرانے اصولوں پر کاربند اپنی ذمہ داریاں نبہاہ رہا ہے۔ جوکہ دور حاضر کی بدلتے ہوئے حالات سے ہمسری نہیں کر پارہے ہیں۔
ہمارے اداروں کی ذبوں حالی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ ہم کتنے پیشہ ور ہیں۔ پاکستان ابھی ان ملکوں میں شمار نہیں کیا جارہا جہاں لوگ روائتی انداز کو تبدیل کر چکے ہیں اور انسانی وسائل یا حفاظتی شعبوں پر عبور حاصل کئے ہوئے ہیں۔کسی بھی فرد کی ذاتی اخلاقیات اس کی مکمل شخصیت کا احاطہ کر رہی ہے۔ ایک شخص کے حقوق اور غلطیوں کے احساس سے متعلق ہے۔کبھی کبھی ذاتی اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کے درمیان جھڑپیں کسی شخص کے اندر ایک دشواری کا سبب بن سکتی ہیں جو ادارے کیلئے بھی نقصان کا باعث ہوسکتا ہے۔ہمارے جو ادارے ابھی تک قابل عمل ہیں اور ہم ان اداروں کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ جلد سے جلد پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے بھرپور افراد تعینات کریں تاکہ وہ اپنی کسی ذاتی خوشی یا تسکین کی خاطر ادارے کو تباہی کی جانب جانے سے روکیں اور ایسے ہی لوگ ان کالی بھیڑوں کی نشاندہی بھی کرسکتے ہیں جو ادارے کو تباہی کی جانب دھکیلنے میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔