تحریر: سید انور محمود گذشتہ سال آٹھ جولائی 2016 کو انسانیت کے علمبردارعبدالستارایدھی ہم سے جدا ہوئےتھے پوری قوم غمزدہ تھی ، ایدھی مرحوم کو پورئے سرکاری اعزاز کے ساتھ انکی آخری آرام گاہ پہنچایا گیا تھا، انکی نماز جنازہ میں صدر مملکت، آرمی چیف، سیاسی جماعتوں کے رہنما اور عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔دس اگست 2017 کو ایک اور انسانیت کی علمبردار پاکستان میں جذام اورکوڑھ کے مریضوں کا علاج کرنے والی ڈاکٹر روتھ فاؤ بھی انتقال کرگیں۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ جرمنی کےشہرلائپزگ میں نو ستمبر 1929کوپیداہوئی تھیں ، اُن کا پورا نام ’’ڈاکٹر روتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ‘‘ تھا، ان کو‘پاکستان کی مدر ٹریسا’ بھی کہا جاتا تھا۔ انیس اگست 2017 کو ڈاکٹر روتھ فاؤ کی آخری رسومات پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی گئیں۔ پاکستان میں جذام یا کوڑھ کے مریضوں کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے والی جرمن ڈاکٹر رتھ فاؤ کو پورئے قومی اعزاز کے ساتھ کراچی کے گورا قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا، آخری رسومات میں صدر، آرمی چیف، گورنر، وزیر اعلیٰ و دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی، اس موقعہ پر پاکستان میں جرمن سفیر بھی موجود تھے۔شہریوں کی ایک بڑی تعداد ڈاکٹر روتھ فاؤ کو آخری الوداع کہنے گورا قبرستان پہنچی، اس موقع پر آرمی چیف، ایئرچیف سمیت عسکری حکام نے ڈاکٹر روتھ فاؤ کو سلامی بھی دی۔
دوسری عالمی جنگ کی دہشت کے بعد ڈاکٹر روتھ فاؤ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دیں گیں۔ پاکستان بنے ہوئے آٹھ سال ہورئے تھے جب 1955 میں 30 سالہ ڈاکٹر روتھ فاؤ ہندوستان جانے کےلیے جرمنی سےنکلیں، لیکن انہیں ہندوستان جاتے ہوئے کچھ دن کراچی میں رکنا پڑا، شاید یہ اللہ تعالی کی طرف سے پاکستان کی ایک مدد تھی۔کراچی میں رکیں تو بجائے گھومنے پھرنے کے دکھی انسانوں کی تلاش میں نکل پڑیں۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ کو پتہ چلا کہ اس شہر میں کوڑھ کے موذی مرض میں مبتلا لوگ بہت برے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں، بس یہ پتہ چلنا تھا کہ ڈاکٹر روتھ فاؤ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کوڑھیوں کی بستی میں جا پہنچیں۔جب وہ کوڑھیوں کی بستیوں میں پہنچیں تو انہوں نے دیکھا کہ جگہ جگہ گٹر کا گندا پانی کھڑا تھا اور غلاظت کے ڈھیر لگے ہوئے تھے، ان حالات میں کوڑھی لوگ جھونپڑیوں میں روپوش پڑے ہوئے تھے، ڈاکٹر روتھ فائو نے ان کو حوصلہ دیا اور لوگوں کو بتایا کہ کوڑھ موذی مرض نہیں ہے، ان مریضوں سے دوری اچھی بات نہیں، بلکہ ان کو پیار دینا چاہیے۔یہ قابل رحم ہیں، جبکہ اس وقت لوگوں کو اس موذی مرض کے بارے میں مکمل آگاہی بھی نہیں تھی اور لوگ اپنے مریضوں کو ان بستیوں میں مرنے کے لیے چھوڑ جاتے تھے۔کوڑھ کے ان مریضوں کو دیکھ کر انسانیت کی علمبردار ڈاکٹر روتھ فائو نے کراچی میں مستقل رہنے کا ارادہ کرلیا اور ہندوستان جانے کا پروگرام ترک کردیا۔ ڈاکٹر روتھ فائو نے کوڑھیوں کی بستیوں میں ان کا علاج کرنے کےلیےاپنے ساتھیوں کے ساتھ اس عظیم انسانی خدمت کا آغاز کیا،صفائی ستھرائی کے کام کیے اور مریضوں کے کوڑھ زدہ حصوں پر اپنے ہاتھوں سے مرہم رکھا، وہ ان مریضوں کو مفت سہولیات فراہم کرتی تھیں۔
پاکستان کو ڈاکٹر روتھ فاؤ کے جانے سے جو نقصان پہنچا ہے، اُس کا ازالہ ممکن نہیں۔ وہ محض جذام کا علاج کرنے والی ڈاکٹر نہیں تھیں بلکہ وہ ایک مضبوط کردار کی حامل ایسی شخصیت تھی جس نے مذہب اور عقیدے سے بالاتر ہو کر انسانوں کی خدمت کی۔ وہ ہر طرح کے انسانوں سے ملتی تھیں، اُن کے قریب جاتی تھیں، ہر اُس شخص کی مدد کرتی تھیں جو اُن سے رجوع کرتا تھا۔ ایسے انسان کا متبادل بہت مشکل سے پیدا ہو سکے گا۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ 1975 سے 1980 تک جذام کے خاتمے کی کوششوں کے لیے پاکستانی حکومت کی مشیر بھی رہیں۔ 1996 میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پاکستان کو کوڑھ کے مرض پر قابو پالینے والے ممالک میں شامل کرلیا گیا اور پاکستان کو یہ اعزاز دلانے میں ڈاکٹرروتھ فاؤ نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔سن 1998 میں انہیں اعزازی پاکستانی شہریت دی گئی جبکہ ہلال امتیاز، ستارہ قائد اعظم، ہلال پاکستان اور لائیو اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ 2011 میں ڈاکٹر روتھ فاؤ کوحبیب جالب امن ایوارڈ دیا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے ڈاکٹر روتھ فاؤ کو ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ دیا جبکہ جرمن حکومت نے انہیں بیم بی ایوارڈ دیا۔دنیا بھر کے بڑے بڑے اداروں نے بھی ڈاکٹر روتھ فاؤ کی خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ دئیے۔
عبدالستارایدھی اور ڈاکٹر روتھ فاؤ دونوں ہی نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کےلیے وقف کی ہوئی تھی۔ عبدالستارایدھی نے 1951میں اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں ایک ڈاکٹر کی مدد سے چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی جو بعد میں ایدھی سینٹرکی بنیادبنی۔ عبدالستارایدھی کے انتقال کے وقت دنیا کے بارہ بڑے شہروں اور پاکستان میں 375 ایدھی سینٹرز موجود تھے۔ 1997ء گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہے۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ کا ادارہ میری ایڈیلیڈلیپروسی سینٹرکے نام سے ریگل صدر کراچی میں موجود ہے اور آج بھی انسانی خدمات جاری و ساری ہیں۔ اس لپرسی سینٹر کا آغاز ایک گراج سے ہوا تھا جو روتھ فاؤ کو ایک پاکستانی تاجر نے استعمال کے لیے کرائے پر دیا تھا۔ شروع شروع میں وہ رات کے وقت اس ایک کمرے کے کلینک میں مریضوں کو دیکھا کرتی تھیں۔ انہوں نے نہایت معمولی چیزوں کی مدد سے یہ کام شروع کیا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک باقاعدہ بڑے کلینک کی شکل اختیار کرگیا اور روتھ فاؤ کا جذام کے مریضوں کے علاج کا یہ پروجیکٹ ملک گیر سطح پر ہی نہیں پڑوسی ملک افغانستان تک پھیل گیا۔ بعد میں ڈاکٹر روتھ فاؤ نے اس کام کو پورے ملک میں پھیلادیا، صوبہ خیبرپختونخوا میں یہ مرض بہت زیادہ تھا، پنجاب اور بلوچستان بھی محفوظ نہیں تھے، مگر اس عظیم ہستی کی بدولت21 سال پہلے پورے پاکستان سے کوڑھ کا موذی مرض تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ خو د تو چلی گیں لیکن میری ایڈیلیڈ لپرسی سینٹر میں ماہرین اور رضاکاروں کی ایک ایسی ٹیم چھوڑ گئی ہیں جو ان کی خدمات کو نہایت لگن سے آگے بڑھاتی رہے گی۔
عبدالستارایدھی اور ڈاکٹر روتھ فاؤ جیسی ہستیاں روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔اگر ہم دونوں کی خدمات پر نظر دوڑایں تو ہمیں دونوں میں انسانیت کی خدمت کی لگن اور خواہش صاف نظر آتی ہیں۔ دونوں کی خدمات لازوال ہیں یہ پاکستان اور پاکستانی عوام کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں ان دو ہستیوں کا ساتھ نصیب ہوا۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ ایک عظیم خاتون تھیں جنہوں نے نصف صدی سے زائد عرصے پاکستان کے مجبور انسانوں کی خدمت کی، اوران خدمات کے نتیجے میں ہی 1996 میں پاکستان جذام کے مرض سے پاک ملک قرار پایا تھا۔آیئے انسانیت کی علمبردار اور محسن پاکستان ڈاکٹر رتھ فاؤ کو خراج عقیدت پیش کریں اور کہیں ’’الوداع اے یسوع علیہ السلام کی بیٹی الوداع‘‘، آپ ہمیشہ ہمیں یاد رہیں گیں۔
ڈاکٹر رتھ فاؤ ایک عظیم خاتون تھیں جنہوں نے نصف صدی سے زائد عرصے پاکستان کے مجبور انسانوں کی خدمت کی، اوران خدمات کے نتیجے میں ہی 1996 میں پاکستان جذام کے مرض سے پاک ملک قرار پایا تھا۔ڈاکٹر روتھ فاؤ خو د تو چلی گیں لیکن میری ایڈیلیڈ لپرسی سینٹر میں ماہرین اور رضاکاروں کی ایک ایسی ٹیم چھوڑ گئی ہیں جو ان کی خدمات کو نہایت لگن سے آگے بڑھاتی رہے گی۔