آج ایک انتہائی اہم موضوع پر بات کرنا چارہا ہوںکہ جس پر شاید ہم نے کبھی بات ہی نہیں کی اور اگر کی تو صرف باتوں کی حد تک محدود رہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی کسی قوم یا گروہ کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو اقوام متحدہ اور دیگر متعلقہ ادارے حرکت میں آجاتے ہیں اور مظلوم کی داد رسی کے لئے ظالم کے خلاف آواز بلند کرتے مگر دنیا میں ایک ایسی قوم بھی پائی جاتی ہے کہ اکثر جگہ پر انہیں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے اور انہیں کو زیادتی کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جارہا ہے اور یہ قوم مسلمان قوم کہلاتی ہے۔ اس معاملہ میں نہ جانے کیوں کوئی بھی ادارہ حرکت میں کیوں نہیں آتا۔ نہ جانے کیوں ساری دنیا ان کے ساتھ ہونے والی درندگی کو بطور تماشا کیوں دیکھ رہی ہے۔ آج یہاں پر فلسطینی عوام کے احوال پر تھوڑی سی روشنی ڈالنے جارہاہوں اور فلسطینی عوام پر ہونے والے یہودی ظلم وستم سے متعلق کچھ حقائق قارئین کی خدمت میں پیش کرنے جارہا ہوں۔ جن کو پڑھنے کے بعد ہم کم از کم دنیا میں ظالم اور مظلوم کا تعین باآسانی کرسکیں گے۔ فلسطینی وزارت اوقاف نے 7 مارچ کو جاری کئے گئے ایک بیان میں انکشاف کیا ہے کہ یہودیوں کے مختلف گروہوں نے صرف فروری کے مہینے میں ہی یروشلم میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کو نقصان پہنچانے کے لئے 30 حملے کئے ان حملوں میں سے بیشتر حملے براہ راست مسلمانوں کے قبلہ اول (مسجد اقصیٰ) پر تھے۔
تفصیلات کے مطابق ان حملوں میں یہودی آباد کار ملوث ہیں جبکہ اسرائیلی فوج اور پولیس نے ان حملہ آوروں کو مکمل طورپر تحفظ فراہم کیا۔ مسجد اقصیٰ کو منہدم کرکے اس کی جگہ پر ہیکل سلیمانی کی تعمیر صہیونی طاقتوں کا پرانہ خواب ہے جس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے یہ ساری کوششیں کی جاتی ہیں۔ دنیا پر یہودی غلبے کی پر اسرار تنظیم فری میسن کے بنیادی مقاصد میں سے یہ ایک اہم مقصد ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کے لئے یہودی حکمران بدریج کوشاں ہیں اور یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب سے اسرائیل وجود میں آیا۔ مسجد اقصیٰ کے انہدام کے لئے اسرائیلی سیاست دان، فوج، اسٹیبلشمنٹ اور عوام کے درمیان مکمل گٹھ جوڑ ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو اپنے مقدس مقامات کے تحفظ اور بقاء کے حوالے سے مکمل مایوسی میں مبتلا کرنا اس حکمت عملی میں قلیدی اہمیت رکھتا ہے اور اسی سلسلہ میں مسلمانوں کے مقدس مقامات کو جارہانہ کاروائیوں کا نشانہ بنا کر یہودی اپنے اس مقصد میں پیش قدمی کرتے جارہے ہیں۔ یاد رہے کہ آج سے تقریباً 20 سال قبل ایک نہایت سفاکانہ واردات ہوئی تھی جب 25 فروری 1994 کو امریکہ میں پیدا ہونے والے ایک انتہاء پسند یہودی گولڈ سٹین نے فلسطین کے شہر الخلیل کی مسجد ابراہیمی پر حملہ کیا۔
وہاں پر موجود مسلمانوں پر اندھا دھن گولیاں برسائیں جس کے نتیجہ میں 30 مسلمان شہید ہوئے اور 125 زخمی ہوئے۔ آج 20 سال بعد اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ پھر اسی ڈگر پر چل پڑی ہے اور مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے مسجد اقصیٰ اور فلسطینی مسلمانو ں پر اپنی جارحیت کو دن بدن تیز کرتی جارہی ہے۔ پورے مغربی کنارے کی طرح شہر الخلیل کو بھی مسلح یہودی افواج کے چیلنج کا سامنا ہے۔ بات یہیں نہیں ختم ہوتی بلکہ یہودی افواج کے بعد یہودی آبادکار بھی مسلمان بستی پر مکمل تحفظ کے ساتھ حملہ آور ہوتے ہیں۔ ایک فلسطینی نژاد امریکی صحافی کے بقول دن کے اوقاف میں جب اسرائیلی بلڈوزر یہودی بستیوں میں توسیع کے لئے فلسطینی علاقوں میں زمین کھودتے ہیں۔ زیتون کے درختوں کو تباہ کرتے ہیں تو رات کو بھاری مشینوں کے ذریعے یروشلم یا القدس کی جانب زیر زمین کھدائی کا کام بھی کرتے ہیں۔ جس کا مقصد قدیم یہودی ہیکلوں کا سراغ لگانا ہے جو کہ 586قبل مسیح اور 70 عیسویں میں تباہ کر دیئے گئے تھے۔
Israel
مشہور اسرائیلی لیڈر ایرل شیر ون نے 2000 ء میں ایک شرانگیز دورہ کیا۔جس میں کئی مسلمانوں کو جام شہادت نوش کرنا پڑا جبکہ اس کے نتیجہ میں شیر وان کو اسرائیلی وزیراعظم کے عہدے سے نوازا گیا۔ آج ایک بار پھر اسرائیلی فوج، رعایا، حکومت اور مذہبی جماعتوں کا بالکل ایک ویسا ہی گٹھ جوڑ دیکھنے کو مل رہ اہے جس کا مقصد مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے وہاں اسرائیلی تعمیرات کرنا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی پارلیمنٹ میں بھی بزور بازو مسلمانوں کے قبلہ اول کو شہید کرنے سے متعلق کافی گرم جوشی سے کام لیا جارہا ہے۔ اس ساری رپورٹ کو پڑھنے کے بعد اگر پوری دنیا پر حالات کا سرسری سا جائزہ لیا جائے تو ایک بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ دنیا میں کہیں کسی قوم پر بھی ظلم وستم ہورہا ہے تو وہ مسلمان ہیں۔ وہ چاہے کشمیر ہو، فلسطین ہو، برما ہو یا افغانستان اور اس کے علاوہ بھی کئی امثال موجود ہیں۔ جن میں خاص طور پر ایک جامع حکمت علمی کے تحت مسلمانوں کا منظم انداز میں قتل عام کیا جارہا ہے اور اس قتل عام کے پیچھے بالواسطہ یا بلاواسطہ عیسائی اور یہودی ہاتھ ملوث ہیں۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ 9/11 میں وائٹ ہائوس پر ایک حملہ ہوتا ہے تو اس کے جواب میں پوری دنیا کا امن تباہ کر دیا جاتا ہے اور نہ جانے کتنی جانیں لقمہ اجل بنتی ہیں۔
جبکہ دوسری جانب فلسطین، عراق، کشمیر، افغانستان، برما اور دیگر علاقوں میں سرعام انسانیت کا مزاق اڑایا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کو پامال کیا جارہا ہے۔ مگر کبھی کسی سنجیدگی سے ان علاقوں میں ہونے والی درندگی کا نوٹس نہیں لیا۔ آخر کیوں؟ کیا یہ قومیں انسانی حقوق کی مستحق نہیں ہیں؟ یا پھر ان کے خلاف اٹھنے والے ہاتھ خود ہی انسانی حقوق کو ڈیفائن کرتے ہیں کہ کون انسانی حقوق کا مستحق ہے اور کس کے لئے انسانی حقوق کے قوانین حرکت میں نہیں آتے۔ کیا کوئی ہے جو اس یہودی بدمعاشی کا جواب دے؟ کیا کوئی ہے جو فلسطین میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کے لئے آواز اٹھا سکے؟ کیا کسی کو اتنی توفیق ہوگی کہ وہ عالمی سطح پر یہودیوں کی ان کاروائیوں کا منہ توڑ جواب دے سکے؟ کیا انسانی حقوق کا رونا رونے والے کسی ادارے کو توفیق ہوگی کہ وہ یہاں پر بھی انسانی حقوق کی بات کرے؟ اقوام متحدہ جس کا مقصد ہی دنیا کے مسائل کو احسن طریقے سے حل کروانا ہے۔
کیا کبھی اقوام متحدہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے گا۔ کیا دنیا میں موجود 60 سے زائد مسلمان خودمختار ریاستیں اس یہودی جارحیت کرو روکھنے کے لئے کوئی حکمت عملی وضع کریں گی۔
نہیں کبھی نہیں یہ لوگ ایسا ہرگز نہیں کریں گے کیونکہ شاہد ان کو اپنے مفادات زیادہ عزیز ہیں۔ مگر یہاں پر ان کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر عالمی برادری کا یہی رویہ رہا ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اب اگر کوئی بلڈ شیڈ ہوتا ہے تو اس کے ذمہ دار کم از کم مسلمانوں کو نہ ٹھہرایا جائے بلکہ ان غلیظ قوموں کے چہروں کو بے نقاب کیا جائے جو ساری دنیا میں ہونے والے فساد برپے کے پیچھے سرگرم عمل ہیں۔