جب کسی قوم کی معاشرتی اور اخلاقی اقدار پستی اور ذلت کی آخری حدووں کو چھونے لگیں تو وہاں ایسے انسانیت سوز اور دل دہلا دینے والے حادثے اور سانحے رونما ہونے لگتے ہیں جن کو دیکھ انسانوں کے تو کجا جانوروں کے سر بھی شرم سے جھکتے ہیں۔ معاشرہ، وحشت اور دہشت نگری کا منظر پیش کرنے لگتاہے اور درندگی زندگی پر غالب نظر آتی ہے۔ جب سفاک ہوس، حواس پر غا لب آتی ہے تو کچھ بدبخت اور بدخصلت لوگ خود کو انسانیت کے منصب سے گراکر بھیڑیوں اور وحشی درندوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ پھرا نسانی معاشرے حیوانی معاشروں میں بدل جاتے ہیں۔ اور بربریت اور سفاکیت کے وہ مناظر رقم کیے جاتے ہیں کہ انسانیت شرمسار ہو جاتی ہے۔
اسے لوگوں کی جہالت اور ذہنی پسماندگی ہی کہا جاسکتاہے جو انہیں گھٹیا ترین جانوروں سے بھی بدتر بنا دیتی ہے۔ کچھ ایسے ہی صورت حال سے بھر ا ہمارا معاشرتی منظر نامہ چیخ چیخ کر گواہی دے رہا ہے کہ ہماری بے حسی اور غفلت نے ہمیں دور جہالت سے بھی پرانے وقتوں کا باسی بنا دیاہے۔ اکیسویں صدی کا نام نہاد مہذب معاشرہ اور حرکتیں پتھرکے زمانے کے جاہلوں اور وحشیوں سے بھی بدتر۔ ہم ظلم اور بربریت کے جس عہدمیں زندہ ہیں وہاں حوا کی بیٹی اپنے لیے انصاف اور عزت اور تحفظ کی متلاشی نظر آتی ہے مگر ہے کوئی جو اس کی آواز پر لبیک کہے اور اس کو انسان ہونے کا حق دلا سکے۔
انسانی کھال میں چھپے بھیڑئیے انسانی ناموس کو گدھوں کی طرح نوچتے نظر آتے ہیں۔لاہور میں پانچ سالہ معصوم بچی کے ساتھ ہونے والی بربریت اور درندگی نے ہمیں خود سے بھی نظریں ملانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ ہر روز کہیں نہ کہیں قوم کی بیٹیوں کے ساتھ رونما ہونے والے اس طرح کے نہ جانے کتنے انسانیت سوز اور ہولناک واقعات ہماری زاول پذیر معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے منہ پر وہ تماچہ ہیں جس کی گونج ہر سانحے کے بعد ہمارے کانوں تک تو آتی ہے لیکن ہم شرم سے سرجکائے انجان ہونے کی ایکٹنگ کرتے رہتے ہیں۔ عورتوں، بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہونے والی بربریت کے انسانیت سوز اور ہولناک واقعات کے اعداروشمار اٹھا کر دیکھ لیں خود ہی اندازہ ہو جائے گا۔
Women children
کہ ہم کس اخلاقی قدکاٹھ کے مالک ہیں نیز انسانی حقوق خصوصا عورتوں اور بچوں کے حقوق کے معاملے میں ہم کتنے پانی میں ہیں جومعاشرے اور حکومیتیں اپنی بیٹیوں کو تحفظ نہیں دے سکتے اور ان تقدس کو پامال ہونے سے نہیں بچا سکتے انسانیت ان کی بے بسی اور بے حسی پر ہمیشہ ماتم کناں نظر آتی ہے۔ کیا کوئی مائی کا لال پاس ہسپتال کے بستر پر پڑی اس مظوم ننھی بچی سے نظریں ملا کر اس سہمے ہوئے چہرے پر موجود سوالوں کے جواب دینے کی جرات رکھتا ہے اگر بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں پھر میرے ساتھ یہ ظلم کیوں آخر میرا کیا قصور تھا جو مجھے سے میرا بچپن چھن لیا گیا۔
کیا اس معاشروں میں بیٹی ہونا اتنا بڑا جرم ہے کیا مجھے انصاف اور میری کھوئی عزت واپس مل سکے گی کیا فلاحی اور جمہوری اور اسلامی معاشرے ایسے ہوا کرتے ہیں کیا میں یقین کرلوں کہ آج کے بعد میری جیسی تمام ننھی کلیوں کی عزت محفوظ رہے گی۔ جو بھیڑیئے معصوموں کا شکار کرتے ہیں کرتے ہیں آخر حکومت انہیں ٹرک میں ڈال کر افریقہ کے جنگلوں میں کیوں نہیں چھوڑ کر آتی تا کہ ہم بچے ان کے شر سے محفوظ رہیں لیکن اس معصوم کو کیا معلوم کہ ایسے خبیثوں کو جنگل کے جانور بھی اپنے خول میں رکھنا پسند نہیں کرتے کہ جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے۔ صرف وحشی درندوں کو تھو تھو کرنے یا ان کی مذمت کرنے سے کام نہیں چلے گا۔
وقت آگیا ہے کہ ہم سب ملکر معاشرے میں پروان چڑھتے ہوئے ان تکلیف دہ اور شرمناک منفی رججانات کو پوری شدت سے کچلنے اشداٹھ کھڑے ہوں۔ اگر اسطرح دل خراش اور سنگین حادثات کے اسباب اور ان کا حل نہ ڈھونڈا گیا تو خدا نخواستہ اس طرح کے واقعات ہماری روحوں کو یوں ہی جنجھوڑتے رہیں گے اور انسانیت یونہی شرمندہ ہوتی رہے گی لہذا ہمیں نہ صرف فحاشی، گندی اور ننگی ہندی اور انگریزی فلموں کی کھوکھ سے جنم لینے والی بے راہ روی اور غلیظ اور گھناونے مائنڈسیٹ کو پروان چڑھنے سے روکنا ہوگا بلکہ ایسے رویوں کے حامل درندصفت بھیڑوں کا منہ کالا کرکے انہیں سرعام کتے کی موت مارنا ہوگا۔
اور انہیں عبرت بنانے کے لیے ایسے بے رحم قوانین بنا نے ہونگے کہ پھر کسی شیطان صفت درندے کو ایسے گھناونے فعل کی جرات نہ ہو ۔ ہمارے اندر گھسے ان درندوں کو یا تو صفحہ ہستی سے مٹانا ہوگا یا ہمیں ان کو جنگل کا راستہ دکھانا ہوگا۔ اس اس کے ساتھ سا تھ یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت کو عریاں اور ننگی فلموں اور سی ڈیز کے مکروہ دھندے اورانٹرنیٹ پر فحش ویب سایٹس پر مکمل اور سخت پابندی لگانی ہوگی۔ حکومت، میڈیا سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں، سب کومل کر ہماری گرتی ہوئی معاشرتی اور اخلاقی اقداربحالی فروغ دینے کے لیے ایک تحریک شروع کرنا ہوگی۔
خصوصا حوا کی بیٹی کو معاشرے میں عزت، تحفظ اور انصاف دلانے کے لیے یک زبان ہوکر جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔ تاکہ ہم ایسے ہم کلچر کو فروغ دے سکیں جہاں لوگوں کے ذہنوں کو جہالت اور گندی سے پاک کیا جائے اور انہیں مثبت اور صحت مند طرز فکر کا عادی بنایا جاسکے۔ یادرکھیں جو معاشرے اپنی، بہن، بیٹوں اور ما ئوں کو عزت نہیں دینے وہ ہمیشہ دنیا میں ذلیل وخوار ہی رہتے ہیں۔ لہذا اگر اب کسی احساس ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔