کورونا وائرس کی عالمی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پوری دنیا کے حالات بجلی کی رفتار سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس عالمگیر وبائی مرض نے پوری دنیا کی معیشت کو تباہ و برباد کردیا ہے اور اسکی دہشت سے ہر جگہ لوگوں کے درمیان ایک کہرام مچا ہوا ہے۔ لاکھوں لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور لاکھوں لوگ اس کا شکار ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وباء اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ کیونکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں روزانہ 20 سے 30 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ فی الحال اس کی کوئی ویکسین نہیں ہے اور کسی کے پاس حالات پر قابو پانے کا کوئی مؤثر منصوبہ بھی نہیں ہے۔ دنیا کے طاقتور ممالک بھی اس خطرناک وائرس کے آگے اپنا ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ عالمی ادارہ ء صحت نے اسے میڈیکل ایمرجنسی قرار دے دیا ہے۔ ملکی حکومتیں اسکے روک تھام کیلئے ماہرین صحت کی رہنمائی سے طرح طرح کی حفاظتی و احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے احکامات جاری کررہی ہیں۔ جس کے پیش نظرپاکستان سمیت پوری دنیا میں لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ مارکیٹیں، تعلیمی ادارے، فیکٹریاں، ٹرانسپورٹ اور ہر قسم کی معاشی سرگرمیاں منسوخ ہیں اور عوام کو ان کے گھروں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اس ہنگامی لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام شہریوں کو بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
خاص کر وہ مزدور اور غریب طبقہ جن کے معمولات زندگی کا دارو مدار یومیہ اجرت پر تھا ، وہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوی، بلکہ فاقہ کی نوبت آپہنچی ہے۔ لگتا ہے یہ مہلک وائرس غریب کو مزید غریب تر کرنے آیا ہے۔ غریب بستیوں میں رہنے والی عوام یہ کہنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ کورونا سے موت یقینی نہیں ہے لیکن اگرحالات یہی رہے تو وہ بھوک سے ضرور مر جائیں گے۔ غربت کے ساتھ اب بھوک کی چکی میں پستے اس غریب عوام کی روز کی کمائی کا آسرا لاک ڈاون نے بند کردیا ہے۔ بھوک ایک ایسی بیماری ہے جو انسان سے حلال و حرام، پاک و ناپاک کی تمیز بھی چھین لیتی ہے۔ خراج تحسین ہے ان لوگوں کے لیے جو صبر کا دامن نہیں چھوڑتے اور مشکل حالات کا سامنا دلیری کے ساتھ کرتے ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ بھوک کا برداشت کرنا بہت مشکل ہے۔ کائنات کی تلخ ترین اور سفاک حقیقت بھوک ہے۔بھوک بڑی بدذات ہے۔
انسان، چرند پرند اور ذی روح مخلوق اپنی بھوک کے سامنے بے بس ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس کے پیش نظر حالیہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے غرباء اور بے سہارا لوگوں کے سامنے بھوک ایک بڑا مسئلہ بن کھڑی ہوگئی ہے۔۔حالانکہ حکومت غرباء اور ضروتمندوں سے ضروری اشیاء خوردنی پہنچانے کے دعوے ضرور کررہی ہے لیکن ابھی تک اس عمل کو یقینی نہیں بنایا جاسکا ہے، جس کے سبب لوگ پریشان ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمارے اوپر یہ فرض ہے کہ ہم اپنے اردگرد رہنے والے غرباء اور مساکین کی بلاتفریق مذہب مدد کریں۔ بھوکے کو کھانا کھلائیں، جو اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے اور نبی آخر الزماں ۖ کے توسط سے جو نظام زندگی بنی نوع انسان کو میسر آیا اس کی تعلیمات میں مرکزیت اسی نقطہ کو حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور قیدی کو۔”
اسلام محض چند مخصوص عبادتوں مثلاً روزہ، نماز، حج و عمرہ کی ادائیگی کے مجموعہ کا نام نہیں بلکہ یہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا ایک حسین امتزاج ہے۔اور اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت کو حقوق اللہ کی اہمیت سے بڑھ کر بیان کیا گیا ہے۔ اسی لئے اسلام نے دنیائے انسانیت کو باہمی اخوت و محبت، ہمدردی اور خدمت گذاری کا درس دیا۔ محتاجوں، غریبوں، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد، معاونت، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین و اسلام کا بنیادی درس ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے، ان کے ساتھ تعاون کرنے، ان کے لیے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء فراہم کرنے کو دین و اسلام نے کار ثواب اور اپنے ربّ کو راضی کرنے کا نسخہ بتایا ہے۔ ایک حدیث میں آپ ۖ نے فرمایا ۔”یہ افضل عمل ہے کہ تم اپنے مؤمن بھائی کو خوشی پہنچاؤ یا اس کا قرض ادا کرو یا اسے کھانا کھلاؤ” صاحب استطاعت پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی مقدور بھر مدد کرے۔
سماجی و فلاحی بہبود کا بنیادی مقصد معاشرے کے محتاجوں، بے کسوں، معذوروں، بیماروں، بیواؤں، یتیموں اور بے سہارا افراد کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح وبہبود ہے۔ یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب ایسے لوگوں کی ضرورت اور معذوروی کا خاتمہ کرکے معاشرے میں دولت و ضرورت کے درمیان توازن پیدا کیا جائے۔ جو لوگ معاشرے سے غربت و افلاس اور ضرورت و احتیاج دور کرنے کے لئے اپنا مال و دولت خرچ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے خرچ کو اپنے ذمے قرض حسنہ قرار دیتے ہیں۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی ضمانت دیتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کئے گئے مال کو کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا۔ دوسروں کی مدد کرنا ان کی ضروریات کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے خصوصاً کھانے کھلانے والے کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔چنانچہ دین اسلام سراسر خیر خواہی کا مذہب ہے۔
دوسروں کی خیر خواہی اور مدد کرکے حقیقی خوشی اور راحت حاصل ہوتی ہے، جو اطمینان قلب کے ساتھ ساتھ رضائے الٰہی کا باعث بنتی ہے۔ محسن انسانیت ۖنے نہ صرف حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کا حکم دیا بلکہ عملی طور پر آپۖ خود بھی ہمیشہ غریبوں، یتیموں، مسکینوں اور ضرورتمندوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ افسوس کہ آج کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ میڈیا پر یہ خبر نہ آتی ہو کہ فلاں جگہ بھوک و افلاس کے ہاتھوں تنگ آکر ماں نے اپنے بچوں کو قتل کر دیا، باپ نے خودکشی کر لی، تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری اور غربت سے اتنا تنگ ہوا کہ لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کو پیشہ بنا لیا۔ اس طرح کی دیگر تمام تر برائیوں کے ظاہر اور مروج ہونے کا اصل سبب اپنے دین حق اسلام کی اصل تعلیمات سے دوری ہے۔ آج ہم دیکھیں اسلام کی روشن تعلیمات سے دور ہوکر ہمارا طرز زندگی، ہمارا طرز معاشرت بہت عجیب سا ہوگیا ہے، بے حسی تو آج کے معاشرے کا معمول بنتی جارہی ہے، ہمیں اپنے رشتہ داروں، ہمسایوں، ضرورت مندوں کے دکھ درد کا احساس ہی نہیں ہے۔ ہم خود تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں لیکن برابر میں رہنے والے بھوکے پڑوسی کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے۔ جبکہ اسلام نے پڑوسی کو کھانا کھلانے کا حکم دیا۔
رسول اللہ ۖنے فرمایا ‘ کہ”ابوذر! جب تم شوربا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسیوں کو یاد رکھو۔”اور پڑوسیوں کو محروم رکھنے کو ایمان کے منافی قرار دیا۔ رسول اللہ ۖنے فرمایا:
”وہ بندہ مؤمن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے” ۔ وہ لوگ جو خود تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں لیکن فقراء و مساکین کا خیال نہیں رکھتے ان کے متعلق قرآن مجید میں ہے کہ وہ قیامت کے دن جہنم میں ہوں گے اور اپنے جہنم میں جانے کا سبب بیان کرتے ہوئے کہیں گے۔”ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی مسکینوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے”