تحریر : امتیاز علی شاکر حج اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔ ہر صاحب حیثیت پر زندگی میں ایک حج مرتبہ فرض ہے۔ حج سب سے افضل درجہ عبادت ہے اور اس میں تمام عبادتیں تسلسل کے ساتھ شامل ہو جاتی ہیں۔ سفرحج انسان صرف اللہ کی رضاوخوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرتاہے۔ کیفیت و وجدان کی ایسی منزل ہے جس کی ہر ساعت انسان کوروحانی لذت سے ہمکنارکرتی ہے۔ بے مقصد زندگی سے بامقصد زندگی کی طرف،روحانی لذتوں سے سرشار ہو کر گناہوں سے مغفرت اورنجاستوں،غفلتوں اور بُری عادات سے نجات پا کر ایک نئی زندگی طرف ایک ہجرت ہے۔ انسان کو دنیا میںاللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے اور یہ خلیفہ کی اپنے آقا کے دربار میں حاضری ہے۔ جب انسان احرام باندھتاہے تو اس بات کا اعلان کردیتاہے کہ اب وہ امیر ، وزیر ، بادشاہ ، تاجر ، عالم ، صاحب جاہ و حشمت ، جلالالملک ، عالی جناب ، ذی وقار ، حضرت العلام ، صاحب کشف و کرامات ، پیر طریقت غرضیکہ وہ کچھ بھی نہیں رہا بس اللہ تعالیٰ کے دیگر بندوں کی طرح ایک بندہ اور آدم و حوا کی اولاد ہے۔ بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
9 ذوالحج تھی’ میدان عرفات نفوس قدسیہ سے بھرا پڑا تھا۔ محسن انسانیت ۖنے عظمت و احترام انسانیت کا وہ پیغام دیا کہ نہ تو روم و ایران کی سلطنتوں میں اس کا تصور تھا اور نہ ہی مصر و یونان کی تہذیبوں میں اس کا کوئی وجود تھا۔ سرکاردوعالمۖ نے ہر سسکتے اور پسے طبقے کو وہ عروج بخشا کہ انسانیت ہمیشہ اس عظمت و احترام پر نازاں ہے۔انسانیت کواللہ تعالیٰ کے بارگاہ سے حاصل کردہ ایسا ضابطہ حیات تحفے میں دیاجس کی ماضی تو کیا مستقبل میں کوئی مثال پیدانہ ہوسکے گی۔ ابتدائے آفرینش سے لیکر انتہائے کائنات تک میگنا کارٹا’ اور جنیوا کنونشن سمیت کوئی دستور اور ضابطہ اس کا مقابلہ نہیں کر پائے گا۔حضرت محمد ۖاپنی اونٹنی (قصوی) پر سوار تھے۔ سنن ابی دائود کی کتاب الحج کے باب صفتہ حجتہ النبیۖ میں ہے۔
آپۖ نے اعلان فرمایا زمانہ جاہلیت کے تمام دستور میرے پائوں تلے ہیں۔ آپۖ نے امتیازات’تفاخر’ تصنع اور تکبر کا خاتمہ کرکے انسانیت کی ناہموار سطح کو برابر کر دیا۔ تاریخ یعقوبی میں ہے آپۖ نے فرمایا لوگو! تم سب آدم کی اولاد ہو۔ اللہ پاک نے ہمارے باپ آدم کو مٹی سے پیدا فرمایا۔ پس جان لو کہ یہ حقیقت ہے کسی عربی کو عجمی’ گورے کو کالے’ سرخ کو سفید پر کوئی فضیلت نہیں۔ اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام اور معاشی’ سماجی ناہمواریوں کے خاتمے کیلئے رسم و رواج کے استیصال کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔صحیح مسلم اور سنن ابی دائود کی روایت میں ہے نبی کریمۖ نے اپنے چچا زاد ربیع بن حارث کا خون معاف کرنے کا اعلان فرمایا۔
Islam
معاشی ناہمواری کے خاتمے کیلئے سود کو باطل قرار دیا اور آغاز اپنے چچا حضرت عباسسے کیا۔متمدن اور مہذب سلطنتوں اور معاشروں میں بھی عزت و عظمت کیلئے ترس کر رہ جانے والی صنف نازک کو وہ احترام اور مرتبہ عطا کیا کہ حوا کی بیٹی اس پر ہمیشہ فخر کرتی رہے گی۔ سنن ابی دائود میں ہے نبی کریمۖ نے فرمایا لوگو! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈر و۔ تاریخ طبری اور سیرت ابن ہشام میں ہے آقا علیہ السلام نے فرمایا تمہارا عورتوں پر اور عورتوں کا تم پر حق ہے اور تم میںسے بہتر وہ ہے اپنی بیویوں سے اچھاسلوک کرے اور میں(آپۖ)اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتاہوں۔احترام انسانیت اور عزت و عظمت بنی نوع انسان کیلئے نبی پیارے آقاۖ کی طرف سے نوازا گیا اعزاز بھی ہمیشہ اولاد آدم کے سرپر سنہرے تاج کی مانند سجا رہے گا۔ شافی محشرۖ نے حاضرین کو مخاطب کیا کہ یہ کونسا شہر’ کونسا دن اور کونسا مہینہ ہے۔
میدان عرفات پر سکوت طاری تھا۔ پھر آپۖنے استفہامیہ انداز میں خود ہی فرمایا کہ کیا یہ مکہ نہیں’ کیا یہ ذوالحج نہیں؟ اور کیا آج یوم الحج نہیں تو صحابہ کرام یک زبان پکار اٹھے کیوں نہیں یا رسول اللہ ۖ یہ مکہ ہی ہے۔ ذوالحج کا ہی مہینہ ہے اور یوم الحج ہے۔ کائنات میں احترام انسانیت کی معراج نے فرمایا کہ تمہاری جان’ تمہارا مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے کیلئے اسی طرح قابل احترام ہے جس طرح بیت اللہ مکہ’ ذوالحج اور یوم الحج محترم ہیں۔ صحیح مسلم اور سنن ابی دائود کی روایات میں ہے کہ محسن کائنات نے اپنے مخاطبین سے استفسار کیا کہ اللہ تم سے میرے بارے میں پوچھے گا تو کیا جواب دو گے تو جماعت صحابہ پکار اٹھی کہ آپۖ نے اللہ کا پیغام کماحقہ پہنچا دیا تو خاتم المرسلین نے انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور کائنات کے واحد مالک و مختار ،خالق ومالک اور حاکم سے مخاطب ہوئے کہ اے اللہ تو گواہ رہنا۔
انسانیت کیلئے اس سے بڑا پیغام مسرت و انبساط کیا ہو سکتا ہے کہ دشمن بھائی بھائی بن گئے۔ غلام کو آقا کے برابر حقوق حاصل ہوگئے۔ حسب نسب کی فضیلت اور جاہلیت کی بڑائی پر تقویٰ اور قانون مساوات غالب آگیا۔ انسانی جان’ عزت اور مال کے احترام اور سود خوری کے خاتمے سے معاشی ناہمواری ختم ہوگی۔آج بھی خطبہ حجتہ الوداع کو بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر کے طورپر نافذ کر دیا جائے تو اسلامی فلاحی ریاست تشکیل پا سکتی ہے۔ اس کیلئے ہر شخص کو کردار ادا کردار ہوگا