مجھے یہ لکھتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں ہو رہی کہ پاکستانی قوم اخلاقی لحاظ سے انتہائی پستیوں میں گر چکی ہے۔مجھے ذاتی طور پر اس بات کا اعتراف ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کی اعلی تربیت کرنے سے قاصر رہے ہیں جس کی ذمہ داری ہمارے کند ھوں پر رکھی گئی تھی۔وہ مسلم قوم جو غلامی کی ذلت سے گزری،جس نے ہندو کی سفاکیت کو برداشت کیا ،جس نے انگریز کی عملد اری میں رسوائی کو گلے لگایا جب ایک جھنڈے تلے جمع ہو گئی تو پھر اس کی راہ کوئی روک نہ سکا۔(قائد کے پاس نہ فوجیں تھیں نہ تھے تیر تفنگ۔،۔ اپنا انا کی قوت سے لڑی تھی اس نے جنگ۔۔گلی کوچوں کے فاقہ مست اس کی سپاہ تھے ٹھہرے۔اپنی فہم و فراست سے کیا تھا سب کو دنگ)۔کمزوروں کو شہباز صفت قیادت ہی بناتی ہے ،ان میں اولالعزمی کو لیڈر شب ہی ابھارتی ہے،انھیں مر مٹنے کا جذبہ قیادت ہی عطا کرتی ہے۔
قیادت جب تک ذاتی سودو زیاں کے محور سے دور رہتی ہے قوم اس کی آواز پر لبیک کہتی ہے،اس کی ایک آواز پر سرِ تسلیم خم کر دیتی ہے لیکن جب لیڈر شپ ذاتی کاروبار کی ترقی،پھیلائو، افزودگی میں مگن ہو جائے اور ارتکازِ دولت اس کی پہلی ترجیح بن جاتی ہے تو قوم پر سکوتِ مرگ طاری ہو جاتا ہے ۔(دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ ۔،۔ کہ یہی ہے امتوں کے مرگِ کہن کا چارہ)۔لیڈر جب تک قوم کی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہے قوم اپنا لہو اس پر نچھا ور کرنے سے دریغ نہیں کرتی لیکن جیسے ہی وہ دولت مندی کے جزائر کا باسی بنتا ہے اس کا تعلق اپنے عوام سے کمزور پڑ جاتا ہے اور قوم کی اخلاقی قدریں دھیرے دھیرے دم توڑنے لگ جاتی ہیں۔عزیزانِ من، ایک محمد علی جناح جس کی دیانت او رامانت کی قسمیں اس کے سارے حریف کھاتے تھے کس طرح اس کے ہاتھوں سے آزادی کی نعمت سے سرفرازہو گئی؟عوام کو یقینِ کامل تھا کہ اس نے اپنا ہاتھ جس ہاتھ میں دیاہے وہ طوفانی موجوں میں اسے چھوڑ کر دولت کی چکا چوند کو گلے نہیں لگائے گا۔وہ طوفانوں میں بھی ان کے ساتھ کھڑا رہے گا ۔اسے ڈوبنے ، مٹ جانے،فنا ہو جانے،ہار جانے ،شکست کھانے،یا حزیمت کا کوئی احساس نہیں ہے۔وہ اپنے نظریے اپنی سوچ،اپنے کردار، اپنی دیانت،اپنی محبت،اپنی یگانگت،اپنی وفااور اپنی کمٹمنٹ میں سرِ مو احراف نہیں کرے گا۔لیڈر وہی ہوتا ہے جو اس جگہ کھڑا ہو جاتا ہے جہاں عوام الناس اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔
جب عوام اور لیڈر یک جان دو قالب ہو جاتے ہیں تو پھرقوم کا ظہور ہو تا ہے۔بھارتی وزیرِ اعظم پنڈت جوا ہرلال نہرو نے کہا تھا ۔(محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے سب سے بڑے معرکہ کو اپنے اعلی کردار سے سر کیا تھا۔)۔کردار کی عظمت ہی تو قوم کے کردار کا پہلا زینہ بنتا ہے۔،۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح ،علامہ اقبال، قائدِ ملت لیاقت علی خان،بہادر یار جنگ،سردار عبدالرب نشترخواجہ ناظم الدین،شیرِ بنگال مولوی فضل الحق اعلی کے کردار اور اوصافِ حمیدہ کی کرنوں سے پھوٹنے والی روشنی نے پاکستانی قوم کی رگوں میں دیانت و اما نت کی ایسی آبیاری کی کہ دنیا دنگ رہ گئی ۔وطن سے ہجرت اور لاکھوں انسانوں کی قربانی کیا ایسے ہی ظہور پذیر ہو جاتی ہے؟چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں نے سکھوں کی کرپانوں اور ان کے نیزوں کی انیوں کو اپنے لہو سے تر کیا تو پھردنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست وجود میں آئی جس میں ایثار تھا، محبت تھی ،یگانگت تھی،قربانی تھی،احسان تھا،دوسرے ہم وطنوں کی خاطر اپنا مال و متاع لٹانے کا جذبہ تھا اور انھیںدوسروں کی خوشیاں،عزت،عظمت اور وقار اپنا محسوس ہوتا تھا ۔(نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز ۔،۔ یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لئے ۔)
اعلی قیادت نے آنکھیں موندھ لیں تو یہ بد نصیب قوم اس پٹری پر جا گری جو کبھی اس کی مرضی و منشاء نہیں تھا۔یہ ملک تو کسی عظیم مقصد کی خاطر حاصل ہوا تھا۔اسلام کی نشاطِ ثانیہ کا ایک خواب جو اس کی تہوں میں پرورش پا رہا تھا اور جسے اقبال جیسے دانائے راز نے خوب ہوا دی تھی اس کا مطمع ِ ِ نظر تھا۔قومیں اعلی کردار،بلند اخلاق اوراعلی اوصاف سے بڑی بنتی ہیں۔عدل و انصاف ان کے جسم میں روح کی مانند دوڑتا ہے۔
ظالم،سفاک،بد دیانت اور نا انصاف قومیں اس کرہِ ارض پر کبھی کبھی زندہ نہیں رہ سکتیں کیونکہ یہ سب انسانی جبلت کے خلاف ہو تی ہیں۔ ۔ (شیرِ خدا حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے کہ (کفر کی حکوت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی) ۔مجھے یہ دیکھ کر حیرانگی ہو تی ہے کہ وہ قوم جو امانت ودیانت ،سچائی،قربانی اور وعدہ ایفائی کی امین اور زندہ تصویر تھی اب اس میں یہ خوبی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ۔ جھوٹ ،منافقت،بد عہدی،بد چلنی،دھوکہ دہی، ہرزہ سرائی،جبر و کراہ،سفاکیت،بے رحمی ،حسد،کینہ پروری،انتقام جس کے رگ و پہ میں سرائیت کئے ہو ئے ہے۔اور جو ذ اتی منعفت کے سامنے کسی کی ایک بھی سننے کیلئے آمادہ نہیں ۔اس نے اپنی کل کائنات ارتکازِ دولت کو قراردہے رکھا ہے کیونکہ معاشرے میں عزت و احترام دھن دالوں کے نام لکھا جا چکا ہے۔
اعلی کردار،ذاتی خصائص ، ایثا ر اور اعلی اوصاف میزانِ وقت میں بے وقعت قرار پا چکے ہیں۔ستم بالائے ستم محفلِ حمد ونعت، میلادیں،نمازیں،شب بید اریاں ، مراقبے ،چلے اور روحانی مشقتیں ایک ناقابلِ بیان حد تک معاشرے میں رائج ہو چکی ہیں،کوئی لمحہ ایسا نہیںگزرتا جب اقوالِ زریں، دانش کے پھول ، حکمتِ ملکوتی اور بصیرت انگیز مواد ہماری نگا ہوں سے نہ گزرتا ہو لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ سب کچھ بھی ہمارے اس ایمان کی آبیاری نہیں کر تا جس کا حکم مالکِ کون ومکاں نے دے رکھا ہے اور جس کی تلقین محبوبِ خدا حضرت محمد مصطفے ۖ نے کر رکھی ہے۔ہم اپنے ہم جنسوں کو اپنے سامنے تڑپتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن ہم میں کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا۔احمروں اور اسودوں کو یکجائی عطا کرنے والے اور اپنے غلاموں کے ساتھ ایک دستر خوان پر کھانا تنا ول کرنے والے ہادی ِ برحق ۖ کی امت کیا اس مقام تک بھی گر سکتی ہے کہ اس کیلئے کسی آستانے پر سر جھکانا تو نیکی قرار پائے ،کسی پیر کی جوتیاں سیدھی کرنا وسلیہِ نجات بن جائے ، کسی اعلی حضر ت کے گھٹنے چھونا اس کی بلند اقبالی کا دیباچہ بن جائے لیکن انسان جو اس کائنات میں اشرف المخلوقات ہے اور جس کی خاطر مذہب اور احکامات نازل کئے گے ہیں ا س کی نگاہ میں اسی نوعِ انسان کی حرمت ان کا تقدس،ان کا احترام اور ان کا وقاربے وقعت قرار پائے ۔
جب کعبہ کی زیارت مقصودِ بالذات بن جائے اور احکامِ الہی ثانوی درجہ اختیار کر جائیں تو انسانیت نوحہ کناں ہو جاتی ہے۔اقبال نے اپنے اشعار میں رو رو کے کئی بار اس کی نشاندہی کی ہے۔آئیے اس کی پکار ایک دفعہ پھر سنیں کہ شائدہم میں انسانیت کی کوئی چنگا ری پھر سے شعلہ جوالہ بن جائے۔مری کی یخ بستہ ہوائوں اور برف باری کی تباہ کاریوں میں ہم نے جس کردارکا مظاہرہ کیا ہے۔اس پر دل خون کے آنسوروتا ہے۔رحم ،رحم ، اے خدا ہم پر رحم فرما اور ہماری کوتاہیوں کو معاف کر دے ۔ہم میں اعلی انسانی احساس کو زندہ کردے کہ یہی ایک صاف گو انسان اور سچے مومن کی پہچان ہے۔،۔
یہ ذکرِ نیم شبی یہ مراقبے یہ سرور۔،۔ تیرں خودی کے نگہبان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ زبان سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل ۔،۔ دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال۔،۔