تحریر : پروفیسر مظہر عروس البلاد کی فضائیں مسموم اور ہوائیں اُداس تھیں۔ خوف کی حکمرانی میں روشنیوں کے شہر کی روشنیاں مدھم پڑتی جا رہی تھیں۔ لمحاتِ زیست تلخ سے تلخ تر ہو رہے تھے۔ کچھ پتا نہیںتھا کہ تلاشِ رزق میں نکلے پنچھی کب نوکِ سنا پہ سج جائیں۔ اسی لیے دعائیں مانگتی مائیں، بہنیں، بیٹیاں اپنی آنکھوں اور گھروں کے کواڑ کھولے اُس وقت تک محوِ انتظار رہتیں جب تک جانے والا لوٹ نہ آتا۔ لوٹ تو سبھی آتے لیکن کچھ اپنے قدموں پہ چل کے اور کچھ چار کندھوں پہ سوار۔ ظلم کے عفریت کے جبڑوں سے ٹپکتا لہو گواہی دے رہا تھا کہ وہ شخص لازمۂ انسانیت سے تہی ہو کر ننگِ انسانیت بن چکا۔ اُس کی وحشت و بربریت اپنی انتہاؤں کو چھو رہی تھی۔ 1993ء میں عظیم طارق کے قتل کے بعد متحدہ کی ساری طاقت اُس کے وجود میں سمٹ آئی اور وہ اپنے آپ کو فرعونِ دوراں سمجھنے لگا۔ اُس کی نام نہاد رابطہ کمیٹی میں بیٹھے لوگ بے جان پتلیاں تھے جن کی ڈور اُس کے ہاتھ میں تھی۔
اگر کسی کے ضمیر کی خلش بے چین کر دیتی اور وہ حرفِ شکایت زبان پر لے آتا تو اُس کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جاتا۔ خوف، دہشت، وحشت و بربریت اور بلیک میلنگ کی انتہا یہ کہ کسی کو پتا نہ تھا کہ لندن میں بیٹھے ”ڈان” کا مخبرکون ہے اور کون نہیں لیکن پھر اُس ننگِ وطن نے سرخ لکیر عبور کر لی۔جس کسی نے بھی اُس کی بکواس سنی، لعنت ملامت ہی کی۔ کچھ لوگ اُسے دبے لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ
اتنا نہ اپنی جائے سے باہر نکل کے چل دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل
طاقت کے نشے میں چور اُس گھمنڈی نے یہ تک نہ سوچا کہ اب اُس کا سامنا جنرل راحیل شریف سے ہے۔ وہی جنرل راحیل شریف جس کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا نعرہ آصف زرداری نے بلند کیا لیکن پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ زرداری صاحب خود ہی فرار ہو کر کبھی دبئی، کبھی لندن اور کبھی امریکہ کی یاترا کرتے رہتے ہیں لیکن اُس جہاز کی سیڑھیوں کے قریب جانے کی ہمت بھی نہیں کرتے جس کا رُخ پاکستان کی طرف ہو۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کسی کے بھی سامنے گھٹنے ٹیکنے یا مرعوب ہونے کو تیار نہیں۔
MQM
تلخ حقیقت یہی کہ ایم کیو ایم فوجی اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد جنرل ضیاء الحق نے رکھی اور جنرل اسلم بیگ ، پرویز مشرف اور جنرل اشفاق پرویز کیانی اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم کا ساتھ دیتی رہی۔ 1992ء میں پہلی مرتبہ جنرل آصف نواز جنجوعہ نے ایم کیو ایم پر ہاتھ ڈالا اور اِس کے خلاف بھرپور کارروائی ہوئی۔
اب الطاف حسین رات کے اندھیرے میں فرار ہو کر پہلے دبئی اور پھر لندن جا پہنچا۔ 1994ء میں وزیرِاعظم بینظیر کے حکم پر دوسری مرتبہ جنرل نصیر اللہ بابر نے ایم کیو ایم کو نشانِ عبرت بنا کے رکھ دیا لیکن وہ کسی نہ کسی صورت میں زندہ رہی۔ میاں نواز شریف صاحب نے ایم کیو ایم کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ساتھ ملا کر چلنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی جلد ہی بیزار ہو گئے۔
پھر جنرل پرویز مشرف کا دَور آیا اور ایم کیو ایم کے تنِ مردہ میں جان پڑ گئی۔ اُسی کے دَور میں 12 مئی کا سانحہ ہوا اور اسلام آباد میں آمر پرویز مشرف فضا میں مُکے لہرا لہرا کر اپنی اندھی طاقت کا اعلان کرتا رہا۔ آج لال حویلی والے صاحب کہہ رہے ہیں کہ سانحہ 12 مئی کراچی ایم کیو ایم کا بلنڈر تھا۔ پتا نہیں شیخ صاحب یہ کیوں سمجھ بیٹھے کہ قوم مرضِ نسیاں میں مبتلا ہے جس دن ایم کیو ایم اشرف المخلوقات کا شکار کھیلنے میں مصروف تھی اُسی دن ایک جلسے میں پرویز مشرف اپنی فرعونی طاقت کا اظہار کر رہا تھا اور شیخ رشید اُس کے حق میں نعرے لگوا رہا تھا۔
Nawaz Sharif Karachi Visit
دسمبر 2013ء میں میاں نواز شریف نے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیرداخلہ چودھری نثار علی کے ہمراہ کراچی کا دورہ کیااور پیپلز پارٹی’ ایم کیو ایم کی رضامندی سے رینجرز کو کراچی میںآپریشن کا اختیار دیا گیا۔
پہلے ڈی جی رینجرز رضوان اختر (موجودہ آئی ایس آئی چیف) اور پھر موجودہ ڈی جی رینجرز جنرل بلال اکبر نے بلاامتیاز آپریشن شروع کیا جس پر پیپلز پارٹی اور متحدہ دونوں ہی چیخ اُٹھیں’ لیکن آپریشن جاری رہا۔ اس دوران پیپلز پارٹی رینجرز کے اختیارات میں توسیع پر لیت و لعل سے بھی کام لیتی رہی لیکن وزیرداخلہ چودھری نثار علی ہمیشہ ڈٹ کرکھڑے ہو جاتے اور پیپلز پارٹی کو پیچھے ہٹنا پڑتا۔
یہی فرق ہوتا ہے ایک ”ڈان” اور سیاسی جماعت میں کہ پیپلز پارٹی حالات سے سمجھوتہ کرتی رہی لیکن الطاف حسین نامی ”ڈان” نوشتۂ دیوار نہ پڑھ سکا اور 22اگست کو خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مار بیٹھا۔ اُس ننگِ دیں’ ننگِ ملک ‘ ننگِ وطن نے اپنی دھرتی ماں کو نہ صرف بے نقط گالیاں بکیں بلکہ اپنے حواریوں سے پاکستان کے خلاف نعرے بھی لگوائے۔
Altaf Hussain
الطاف حسین کی ہرزہ سرائی کے بعد فضاؤں میں سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی للکار سنائی دی۔ اُنہوں نے ڈٰ جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر کو مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہچانے کا حکم دیا اور دبنگ بلال اکبر نے اعلان کر دیا کہ اگلے دن کا سورج طلوع ہونے سے پہلے تمام مجرموں کو پکڑ لیا جائے گا اور اُنہوں نے ایسا کرکے دکھا بھی دیا۔ پھر نائن زیرو سمیت یکے بعد دیگرے ایم کیو ایم کے دفاتر سیل ہونے شروع ہوئے اور ایسے تمام دفاتر کو مسمار کرنے کا حکم نامہ بھی جاری ہوا جوزمین پر ناجائز قبضہ کرکے بنائے گئے تھے۔ فاروق ستار کی سربراہی میں ایم کیو ایم نے الطاف حسین سے مکمل لا تعلقی کا اظہار کر دیا ہے جسے قابلِ ذکر حلقوں میں ایم کیو ایم کو بچانے کا ایک حربہ سمجھا جا رہا ہے۔
پاک سر زمین پارٹی بڑی شدومَد سے فاروق ستار کی اِس علیحدگی کو ڈراما قرار دے رہی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایم کیو ایم کے سینئر راہنمائوں نے فاروق ستار کوکہا ہے کہ اگر الطاف حسین سے مکمل طور پر تعلق ختم نہ کیا گیا تو وہ اجتماعی استعفے دے دیں گے۔ یہ تو خیر اگلے چند دنوں میںکھل جائے گا کہ الطاف حسین سے علیحدگی میں کتنی حقیقت اور کتنا فسانہ ہے’ سوال مگر یہ ہے کہ منصہ شہود پر آنے والا سب کچھ ڈراما نہیں بھی تو کیا ایم کیو ایم پاکستان کو صرف اس لیے معاف کر دیا جائے کہ اُس نے الطاف حسین سے لاتعلقی کااعلان کردیا ہے؟ کیا اُن چھ ہزار سے زائد معصوموں کا خون معاف کر دیاجائے جن کے چھینٹوں سے ان سبھی کے دامن داغدار ہیں؟ کیا خونم خون کراچی کو اجاڑنے والوں کے سبھی گناہ محض اس لیے دھل گئے کہ اب اُن کا الطاف حسین سے کوئی تعلق نہیں؟