تحریر : راشد علی انسانیت ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو انسان سے منسلک رکھتا ہے اور اگر یہ احساس ناپید ہو جائے تو وہ معاشرہ، قوم یا سلطنت تباہی اور بربادی کی نظر ہو جاتی ہیں تاریخ کے اوراق کی سیاہی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ خوشحال معاشرے کی تکمیل اسی صورت میں ممکن ہے جب خود غرضی کے بجائے مثبت قومیت کو پروان چڑھایا جائے رنگ، نسل، قومیت یا مذہب کی تفریق کیے بغیر ایک دوسرے کے کام آنا بھی انسانیت ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ایسے انسانوں کو پسند کرتا ہے جو ایسی اقدار کی پرورش کرتے ہوں انبیاء کرام اور اولیا عظام نے انسانوں کو انجینئرنگ کی تعلیم نہیں دی بلکہ آئیڈلوجی کی معراج پر پہنچایا ٹیکنالوجی کی استعداد اللہ تعالیٰ نے ہرانسان کے اندر رکھی ہے جس کی بدولت وہ نت نئے تجربات کرتا رہتا ہے۔
سائنسی ایجادات نے حضرت انسان کو جہاں سہولیات فراہم کی ہیں وہاں اس نے انسان سے انسانیت چرا لی ہے ٹیکنالوجی کا کارنامہ ہے کہ ہر منٹ میں زمین پر سینکڑوں انسانوں کا قتل عام ہورہا ہے طاقت اورپاور کے نشے میں چور عالمی طاقتیں زمین پر خون کی حولی کھیل رہی ہیں تعمیر انسانیت احترام انسانیت دور دور تک نظر نہیں آتی مفادات میں الجھا انسان معصوم لوگوں کے لیے آستین کا سانپ بن بیٹھا ہے ظلم کی داستان لکھنے والا انسان اورظلم کی تصویر بننے والابھی انسان ہے ظلم کی داستان زمین پر رقم کرنے والے ان بہرپیوں کو کیا کوئی آئینہ دکھا سکتا ہے ؟ نہیں !جہاں رشوت ستانی چوکیدار سے لے کر بادشاہ کے دربان کی دیوی بن چکی ہو وہاں ایسا کیسے ممکن ہے ؟اس ظلم پر مبنی سماج میں انسانیت کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے وہ احباب جنہوں نے اس احسن فریضہ کو سرانجام دینا تھا وہ خود انفرادی واجتماعی طور پرتقسیم کا شکار ہیں ان کی رغبتیں اورہدف تنگ نظری کا شکار ہوگئے ہیں حرص ،دنیاوی شہرت نے ریاضت کی جگہ لے لی ہے ریا مراقبے پر غالب ہے سلفیاں شخصیت سازی تصور کی جا رہی ہیں۔
اقتدار کے مکینوں سے اٹھک بیٹھک کو کردار کی اعلیٰ چوٹی تصور کرلیا گیا ہے،صبر کمزوری اور ظلم طاقت کا معیار بن گیا ہے غریبی پاپ اور امیری کو عزت کا درجہ سمجھا جانے لگا ہے نام نہاد عزت میں اضافے کے لیے ہرطرف لوٹ کھسوٹ جاری وساری ہے نت نئے اور جدید انداز میں دولت واقتدار کے حریص حضرت انسان کی زندگیوں سے کھلواڑ کھیل رہے ہیں حقیقی کردار سازی اورفکر ی تربیت کا دن بدن کمزور پڑرہی ہے ،تعلیم کا مقصد انسانیت سازی ہے مگر یہاں ملازمت حاصل کرنا مقصود ہے ڈاکٹر معاشرہ کی سماجی شخصیت ہے مگریہ شعبہ صرف زر بٹورنے میں مصروف عمل ہے پولیس کامقصد امن اورلوگوں کا تحفظ کرنا ہے مگر یہاں امن کے علمبردار انسانیت پر مظالم کررہے ہیں کس کس پہلو انسان کا انسان کے ساتھ ظلم بیان کروں ضمیر ،احساس اورمروت کا گلہ گھونٹ کر ہم سمجھتے ہیںکہ ہم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں اجتماعی بے حسی کے سبب انفرادی خود کشیاں رواج پارہی ہیں ،اہل نظر وفکر تعمیر وفلاح کی بجائے دھڑوں میں منقسم ہیں۔
مروت احساس ،اخوت ،بھائی چارہ ،بھائی چارہ زمانے کا سماجی ملاپ دکھائی دینے لگا ہے جسے صرف تاریخ کے اوراق پر ہی پڑھا جاسکتا ہے آج کا انسان خواہشات کو پانے لیے انتھک محنتوں پر مبنی تاریخ رقم کررہا ہے خواہش کی تکمیل کے لیے جسم فروشی ،ڈکیتی ،رہزنی ،رشوت ستانی ،ملاوٹ باعث اجروثواب تصور کیا جانے لگا ہے ستم در ستم یہ ہے کہ برے اعمال کا مرتکب انسان نادم وپیشماں ہونے کی بجائے اپنی بداعمالیوں پررقص کناں ہے اپنی ذات کا تحفظ جس معاشرے میں اولین ترجیح ہو وہاں انسانیت کیسے پروان چڑھ سکتی ہے ہزاروں لوگوں کے حقوق کے محافظ چند مٹھی بھر لوگوں کے لیے مصلحت کا شکار ہیں۔
ہمارے دارلحکومت کو ہی دیکھ لیجئے اربابِ اقتدار چاہتے ہیں کوئی آسمانی آفت آئے دھرنا مافیہ یہاں سے چلاجائے جس کا جی چاہتا ہے ریاست کے اندر منی ریاست بنا لیتاہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے جمہوری پنڈت عامتہ الناس کو بنیادی حقوق دینے سے قاصر ہیں اخلاقیات کا تقاضا تو یہ ہے جو کام آپ احسن طریقے سے سرانجام نہ دے سکیں اس سے خود ہی دستبردار ہوجائیں تاکہ اچھے لوگوں کو موقع ملے سکے ۔سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کریں ؟ یہ تو انسانیت ہے جس سے ہمیں کو ئی سرکار نہیں ہے ہمارا مقصد اپنی خواہشات کے تحفظ تک آئین وقانون کی حکمرانی کا اجراء ہے۔