ابلیس شیطان

Satan

Satan

تحریر : میر افسر امان

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ”ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا اور اُس سے پہلے جنوں کو ہم آگ کی لپیٹ سے پیدا کرچکے تھے(الحجر۔٢٧)۔ اللہ نے قرآن میں میں جنوں کے سرادر کو کہیں ابلیس اور کہیں شیطان کہا ہے۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا جبکہ جنوں کو آگ سے پیدا کیا۔ابلیس شیطان جنوں میں سے ہے۔اللہ نے انسانوں کی طرح جنوں کو بھی اچھے برے کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ جب اللہ نے انسان کو پیدا کیا تو فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ فرشتوں نے اللہ کا حکم مانا اور آدم کو سجدہ کیا، مگرابلیس نے سجدہ نہیں کیا۔ اللہ نے پوچھا جب میں نے حکم دیا تو نے تم نے انکار کیوں کیا۔ ابلیس نے کہاکہ میں اُس سے بہتر ہوں۔ آپ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا مجھے آگ سے پیدا گیا۔ابلیس نے اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے گھمنڈ کیا۔اللہ نے ابلیس کو کہا کہ یہاں سے نیچے اُتر جا ،در اصل تو ان لوگوں میں سے ہے جو خود اپنی ذلّت چاہتے ہیں۔

ابلیس نے اللہ سے انسانوں کو بہکانے کی قیامت تک کی مہلت مانگی ۔ اللہ نے اُسے مہلت دے دی۔ابلیس نے کہا کہ میں تیرے بندوں کو تیرے راستے سے ہٹائوں گا۔ میں انسانوں کو آگے پیچھے اوردائیں بائیں، ہر طرف سے گھیروں گا، تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔اللہ نے ابلیس سے کہا کہ نکل جا جہاں سے ذلیل اور ٹُھکرائے ہوئے۔ تو میرے نیک بندوں کو میرے راستے نہیں ہٹا سکے گا۔ یقین رکھ کہ انسانوں میں سے جو تیری پیروی کریں گے، تجھ سمیت ان سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔ پھر اللہ نے آدم کوکہا کہ تم اور تیری بیوں، دونوں اس جنت میں رہو۔ جہاں جس چیز کو تمھارا دل چاہے کھائو ، مگر اِس درخت کے پاس نے نہ پھٹکنا ورنہ ظالموں میںہو جائو گے۔پھر شیطان نے آدم اوراس کی بیوی کو بہکایا تاکہ ان کی شرم گاہیں جو ایک دوسرے سے چھپائی گئی تھیں ان کے سامنے کھول دے۔شیطان نے ان سے کہا کہ رب نے تمھیں جو اِس درخت سے روکا ہے ،اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جائو۔

تمھیں ہمیشکی کی زندگی حاصل نہ ہو جائے۔ شیطان نے ان سے قسم کھاکر ان سے کہا کہ میں تمھارا سچا خیر خواہ ہوں۔اس طرح دھوکا دے کر وہ ان دونوں کو رفتہ رفتہ اپنے ڈھب پر لے آیا۔آ خر کار جب دونوںنے اس درخت کا مزا چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے۔ وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتّوں سے ڈھاکنے لگے۔ تب اللہ نے کہا کہ میں نے تمھیں اِس درخت سے نہ روکا تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے۔دونوں بول اُٹھے۔ اے رب!ہم نے اپنے اُوپر ستم کیا۔ اب اگر تُو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے۔اللہ نے فرمایا اُتر جائو تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔تمھارے لیے ایک خاص مدت تک زمین میں جائے قرار اور سامانِ زیست ہے۔ اور فرمایا، وہیں تم نے جینا ہے اور وہیں تم نے مرناہے۔ اور اسی میں سے تم کو آخر کار نکالا جائے گا۔ یہ ہے شیطان اور انسان کا معاملہ جو ہمیں قرآن بتاتا ہے۔

اگر ہم اِس کا تجزیہ کریں تو کچھ یوں صورت بنتی ہے۔اللہ نے انسان کے اندر ایک فطرتی شرم اور حیا کا جذبہ رکھا ہے۔ اس کا اوّلین مظہر وہ شرم ہے جو اپنے جسم کے مخصوص حصوں کو دوسرں کے سامنے کھولنے میں آدمی کوفطرتاً محسوس ہوتی ہے۔ جو اسلامی تہذیب کا ایک مظہر ہے۔ شیطان نے سب سے پہلے اسی شرم حیا پر حملہ کیا۔ اللہ کے حکم ادولی کے بعد آدم اور اس کے بیوی کے ستر ایک ددسرے کے سامنے کھل گئے۔شیطان کے مغربی چیلے اسی شیطان کے طریقے پر چل پڑے۔دنیا کو بتاتے پھرتے ہیں کہ یہ شرم حیا تہذیب کے ارتقا سے مصنوعی طور پر پیدا ہوئی ہے۔ جبکہ اللہ نے پہلے سے ہی انسان کے اندر شرم حیا دیت کیا ہے۔

مغرب نے پہلے عورت کا لباس کم کر کے اسے نیم عریاں کیا۔ عورت کو شمع محفل بنایا۔ پھر نائٹ کلبوں میں سیکسی ماحول پیدا کیا۔کلبوں میں عورتیں مردوں کی ہوس کا نشانہ بنتے ہوئے، بیلے ڈانس میں بے حیا عورتیں مردوں کے سامنے ڈانس کرتے ہوئے اپنے جسم سے لباس کاایک ایک کپڑا ُترتے ہوئے آخر میں مادر ذات نگی ہو جاتیں ہیں۔ آج مغرب کے اندر ان ہی کے اعدادشمار کے مطابق چالیس فی صد حرامی بچے ہیں۔ ایسی حیوانی حرکت کرتے ہوئے، کیا مغرب شیطان کا چیلا ہے کہ نہیں؟ کیایہ تہذیب مسلمان معاشرے میں سریت نہیں کر رہی؟ کیا ہمارا الیکٹرونک میڈیا بے شرمی اور حیاحی کو عام نہیں کر رہا؟۔ کیا مدینے کی اسلامی ریاست کا نعرہ لگانے والے حکمران کو سب سے پہلے اس شیطانی حربے کو کنٹرول نہیں کرنا چاہیے؟

شیطان کا ایک اور حربہ یہ بھی ہے کہ وہ انسان کا دوست خیرخواہ بن کر اپنے ڈھنگ پر لاتا ہے۔ جیسے جنت میں آدم کا خیرخواہ بن کر اور قسم کھا کر اُسے جنت سے نکلوایا تھا۔ آج مغرب مسلمانوں کا دوست اور خیرخواہ بن کر مسلمانوں پر حکمرانی کر رہا ہے۔ مسلمان ممالک مغر ب کی شیطانی چالوں کا تر نوالا بن رہے ہیں ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں واضع ہدایات دیتا ہے کہ یہودی اور عیسائی مسلمانوں کے ہر گز دوست نہیں ہو سکتے جب مسلمان ان جیسے نہ ہو جائو۔

حیرت کا مقام ہے کہ مسلمانوں نے دہشت گردی کے خلاف مسلم دنیا کے ٣٨ ملکوں کا ملٹری اتحاد بنا کر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس ملٹری اتحاد کا سربراہ بنا دیا۔ جبکہ امریکا نے عراق ،لیبیا، شام، اور افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا۔ اس سے قبل ہمارے بزدل کمانڈو ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے دوست نمادشمن، امریکا کی ایک ٹیلیفون کال پر اسے لاجسٹک سپورٹ کے نام پر پاکستان کے بحری، بری اور فضائی راستے دے کر پرائی جنگ میں ملوث کیا۔ ملک کے پچھتر ہزار شہری اور فوجی شہید کروائے۔ پاکستان کا ١٥٠ارب ڈالر سے زیادہ معاشی نقصان بھی ہوا۔ ہمارے ملک کا کوئی ادارہ بھی دشمن کے خودکش حملوں نہیں بچا۔ امریکا،اسرائیل اور بھارت نے مل کر ہمارے ملک میں دہشت گردی کی۔ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت اب بھی پاکستان میں اسرائیل اور امریکاکی شہ پر دہشت گردی کر رہا ہے۔ پاکستان کے دانشور اور ملک سے محبت کرنے والے حلقے چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ یہ ہماری جنگ نہیں امریکی کی جنگ ہے۔ مگر اس پرڈکٹیٹر مشرف نے کان نہیں دھرے ۔ ڈکٹیٹر پرویزمشرف قومی مجرم ہے۔

شکر ہے اب ہمارے موجودہ بہادر سپہ سالار نے کہا ہے کہ دہشت گردی میں پاکستان نے دنیا میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ اب ہم ڈور مور نہیں کر سکتے ۔ اب دنیا ڈو مور کرے۔ہمارے سیاسی قیادت بھی کہتی ہے کہ یہ ہماری جنگ نہیں۔ اب ہم کسی اور کی جنگ پاکستان میں نہیں لڑ سکتے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ملک کے سارے ادارے اب ایک پیج پر ہیں۔ افغان طالبان بھی امریکا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پہلے ہمارے ملک سے فوجیں نکالو پھر مذاکرات کی بات کرو۔

صاحبو!شیطان نے اللہ کو چیلنج دیا تھا کہ میں تیرے بندوں کو آگے پیچھے اور دائیں بائیں سے حملہ کرکے لڑائوں گا۔اس لیے ہمیں ابلیس شیطان کے چالوں سے ہوشیار رہنا چاہیے ۔نہ جانے شیطان کے مغربی چیلوں نے کس کس رنگ میں بیس بدل کر مسلمانوں کو مختلف قومیتوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے لڑایا۔ شیطان کی چالوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم اللہ کے مومن بندے بن جائیں اورمسلمانوں کے اندر اتحاد ارفاق پیدا کریں۔پھر ابلیس شیطان ہمیں اللہ کے راستے سے نہیں ہٹا سکتا۔ اللہ سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں مومن بندے بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان