خود نمائی ریا کاری اور اعلی ظرفی

Poverty

Poverty

خود نمائی ایک نفسیاتی و روحانی بیماری تو ہے ہی یہ فرد کو ریا کاری کی طرف بھی لے جاتی ہے۔ ریا کاری گناہ ہے بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو تمام اعمال کو ضائع کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ خود نمائی اور ریا کاری میں بہت معمولی فرق ہے ۔خود نمائی اپنی کسی خوبی،صلاحیت،دولت،غربت ،پسند نا پسند ،عمل و فعل کو نمایاں کرنے کے لیے بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کو کہتے ہیں۔تاکہ دوسرے اس کی تعریف کریں اسے منفرد ،اچھا ،اعلی خیال کیا جائے یااس کے ساتھ ہمدردی کی جائے ۔جب کہ ریا کاری نیک اعمال اس نیت سے یا یہ سوچ کر کرنا کہ دیکھنے والے سننے والے مجھ کو نیک خیال کریں یعنی نیک افعال دکھاوے کے لیے کرنے کو کہتے ہیں ۔خود نمائی سماجی اور ریاکاری مذہبی طور پر درست طرز عمل نہیں ہے۔

خود نمائی اور ریا کاری کا مرض اب حکمرانوں اور عوام و خواص کو یکساں لاحق ہے ۔ حکمران لاکھوں کا کام کر کے کروڑوں اس کی تشہیر پر لگا دیتے ہیں ۔ خود نمائی سے ہمارے سیاسی و مذہبی اور نہ ہی سماجی رہنما محفوظ ہیں ۔خود نمائی اور ریاکاری کو سمجھنے کے لیے چند مثالیں۔مجلس میں خود کو سب سے نمایاں کرنے کے لیے ،اعلی ثابت کرنے کے لیے دوسروں کی تضحیک کرنا ،جواز یہ ہے دلیل یہ ہے کے ہتھیاروں سے دوسرے کی دلیل سنے بغیر اسے لاجواب کرنے کی کوشش کرنا۔

اس کی مثال کے لیے ٹی وی چینل کے ٹاک شو دیکھے جاسکتے ہیں۔دوسروں کی کسی کمی ،خامی،ناکامی کا گھٹیا طریقے سے مذاق اڑانا جس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہو کہ میں اعلی ہوں ،اچھا ہوں حتی کہ بعض افراد تو اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمت کو اپنے زور بازو کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور جس کو وہ نعمت میسر نہ ہو اسے اللہ کا ناپسندیدہ قرار دیتے ہیںاور اس پر اپنی بڑائی جتاتے ہیں ۔ اپنے گذشتہ کارنامے بیان کرنا کہ میں نے ایک دفعہ رات ایک بجے جنگل،قبرستان،ویرانے یا شدید بارش میں فلاں کام کیا ،فلاں جگہ گیا وغیرہ جس سے دوسرے تعریف کریں ۔واہ جی واہ میں نے فلاں شخص کی اس کے گھر جا کر مدد کی عیادت کی اور کسی کو اس بارے میں نہیں بتایا جب پوچھا جائے کتنی مدد کی تو انکسار سے کہنا چھوڑو اس بات کو میں نیکی کر کے بتانا پسند نہیں کرتا۔

تاکہ دوسرے یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ کتنا اچھا اور نیک آدمی ہے خیرات ایسے کرتا ہے کہ بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہیں چلتا ۔قربانی کے لیے سارے محلے ،خاندان سے قیمتی جانور خریدنا اور اسے لے کر شیخی مارنا کہ میں بڑا نیک فرد ہوں ۔ واہ بھئی واہ کیا بکرا خریدا ہے ۔پاکستان میں تو کوئی چیز خالص نہیں ملتی ہم تو پانی بھی امپورٹنڈ پیتے ہیں۔ اپنے خاندان کے حوالے سے خود کو سماجی خدمات کے حوالے سے نمایاں کرنا میرے تایا ،چاچا،ایس پی ہیں ،بہت بڑے ڈاکٹر ہیںلوگوں کی بہت خدمت کرتے ہیں ۔ مشیر ہیں وزیر ہیں ہر وقت ان کے گھر لوگوں کی اپنے مسائل حل کروانے کے لیے قطاریں لگی رہتی ہیں ۔خود کو نمایاں کرنے کے لیے مفت مشورے دینا۔

اس کی مثال ہمارے کالم نویس بھائی ہیں۔ میں تو جارہا ہوں باجماعت نماز ادا کرنی ہے ،داڑھی اس نیت سے رکھنا کہ لوگ مذہبی خیال کریں ،روزے دکھاوے کے لیے رکھنا ۔یہ سب اچھے اعمال ہیں ان کی تعریف ہونی چاہیے مگر ان اچھے اعمال کو اس نیت سے کرنا کہ دوسرے مجھے اچھا خیال کریں ، نیک سمجھیں دکھاوے کے لیے نیکی کے کام کرنا یہ بات خود نمائی اور ریاکاری ہے۔پہلے تو شیطان انسان کو نیک اعمال کرنے سے روکتا ہے مگر جب انسان نیکی کا کام کر ہی لیتا ہے تو اس کو دکھاوا بنا کر اعمال ضائع کروا دیتا بعض افراد اپنی بیماریاں بھی اس طرح بیان کرتے ہیں کہ دوسرے کہیں کہ بڑے صبر والا ہے ،مجھ کو یرقان ہے ،میرا دادا کینسر سے مرے تھے بے چارے ۔مجھے اتنا بڑا زخم آیا مگر میں نے اف تک نہ کی تا کہ لوگ کہیں بڑے جگرے والا ہے۔

خود نمائی دراصل احساس کمتری یا احساس برتری کی ہی وجہ سے ہوتا ہے۔احساس کمتری کا شکار اپنی اہمیت جتانے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ احساس برتری کا شکار جب لوگ اس کو اہمیت نہ دیں تو ایسا رویہ اختیار کرتا ہے ۔ہم کو اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے کہ ہم میں سے کون،کہیں میں خود ہی تو خود نمائی یا ریاکاری کا شکار نہیں ہوں۔ایسا نہ ہو کہ ہم کو پتہ ہی نہ چلے اور ہم خود نمائی اور ریاکاری کی دلدل میںپھنستے جائیں اور ہمارے اعمال ضائع ہو جائیں ۔خود نمائی اور ریاکاری سے بچنے کا سب سے اہم طریقہ خود احتسابی ہے ۔رات کو سونے سے پہلے اپنے دن بھر کے اعمال کاجائزہ لینا چاہیے ۔جس شخص میں خود نمائی یا ریا کاری کا خناس نہ ہو وہ اعلی ظرف ہوتا ہے وہ اپنی زندگی اعلی اخلاقی اصولوں کے تحت بسر کرتا ہے۔

Life

Life

انسان کی زندگی میں ظرف کی بہت بڑی اہمیت ہوتی ہے کیونکہ انسان کو اس ظرف سے ہی پرکھا اور پہچانا جا تا ہے، جس کا ظرف جتنا اونچا اور اعلیٰ ہو گا وہ انسان اتنا ہی قابل احترام اورباعزت ہوگا در اصل ظرف ہی انسان کی عزت و آبرو کا بھرم رکھتا ہے اس لئے وہ دوسروں کی نظر وں میں قابل قدر بن جاتا ہے، انسان کی اعلیٰ ظرفی زندگی کے ہر شعبے اور ہر میدان میں اس کے بہت کام آتی ہے۔ اعلیٰ ظرف انسان کے خیالات بھی ہمیشہ اونچے ہوتے ہیں ، کسی بھی کام کو وہ انسانی فرض سمجھتا ہوا اسے بخوبی انجام دیتا ہے اس کام کو دولت کے حصول کا ذریعہ کبھی نہیں بناتا، یہی وجہ سے کہ وہ دوسروں کی نظروں میں نہ صرف اونچا مقام رکھتا ہے۔

بلکہ باعزت اور باعث احترام بن جاتا ہے، دنیا میں بعض ایسے انسان بھی ہوتے ہیں جو ہمیشہ کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ دوسروں کی نظروں میں گر جاتے ہیں ، کم ظرف انسان کی نیت ٹھیک نہیں ہوتی وہ ہمیشہ اس سوچ میں رہتا ہے کہ دوسروں کامال ہڑپ کرلے ، دوسروں کی دولت کسی بھی طرح حاصل کرلے، دولت حاصل کرنے کے لئے وہ ہر ناجائز کام بھی کرتا ہے، بے ایمانی کرتا ہے ، ہر کام میں اپنے مقصد اور مفاد کو شامل کئے بغیر کسی سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا، اس طرح اس کی بد نیتی، کنجوسی اسے معاشرے میں بدنام کر کے رکھ دیتی ہے، وہ سب کے سامنے ذلیل اور رسوا ہو جاتا ہے، وہ کبھی عزت حاصل نہیں کر سکتا اور کہیں بھی اپنا کوئی خاص مقام نہیں بنا سکتا، کم ظرف انسان بہت جلد گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا رہتا ہے۔

اگر اسے تھوڑی بہت دولت مل جاتی ہے تو وہ اکڑنے لگتا ہے اور اچھلنے لگتا ہے جسکی وجہ سے اس کو معاشرے میں عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، اس سے تعلق رکھنے والے سب یہی کہتے ہیں کہ وہ اپنی اوقات بھول گیا ہے، انسان اپنی حرکتوں سے ہی دوسروں کو اپنی کم ظرفی کا پتہ بتا دیتا ہے، اس کے بر عکس جو انسان اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ان میں ضبط کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے صبر اور استقلال ہوتا ہے، اور ہمیشہ ایک ہی رفتار سے چلتے پھرتے نظر آئیں گے، مال و دولت بھی ان کے اندر کو ئی تبدیلی نہیں لاتی، جس کی وجہ سے وہ زندگی کی راہوں میں ایک ہی رفتار سے گامزن نظر آتے ہیں ، دولت بھی ان کے نزدیک دھوپ چھائوں کی مانند ہوتی ہے اور وہ اپنی اعلیٰ ظرفی کے ذریعے ہمیشہ دوسروں کے دلوں میں اپنا ایک الگ ہی مقام بنائے رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ریا کینہ ،خود نمائی سے بچائے اور اعلیٰ ظرف بننے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔۔آمین

Sardar Akhtar Chaudhry

Sardar Akhtar Chaudhry

تحریر: اختر سردار چودھری کسووال