ہمارے اندر کا بچہ

Children

Children

ہر انسان کے اند ر ایک بچہ چھپا ہوتا ہے۔ جس کا المیہ یہ ہے کہ اس کے باہر کا ماحول اسے بہت جلد یہ احساس دلا اور جتا دیتا ہے کہ اب وہ اب بچہ نہیں رہا۔

اس کو مسائل کے حل کی ایک ہی چابی رب نے تھما ئی ہوتی ہے ….یعنی محبت کی ” ماسٹر کی لیکن اس کا بیرونی ماحول اس کے اس بچگانہ اسلحے کی خوب ہنسی اڑاتا ہے اتنی کہ بچہ اپنی وہ چابی بے کار جان کر پھینک دیتا اور منہ بنا لیتا ہے۔ ایسے میں ” بڑے ” اسے بہلانے کے لئے ”سکہ رائج الوقت” بطور چابی تھما دیا کرتے ہیں۔

مسلسل تجربات سے اسے یہ اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ یہی وہ چابی ہے کہ خواہشوں پر پڑے اکثر تالے جس سے باآسانی کھل جاتے ہیں ۔ اب و ہ بچہ چونکہ بڑا ہو جا چکا ہوتا ہے سو وہ سکے کے حصول میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا اور اپنا آپ کھپا دیتا ہے۔ اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ و ہ اب بھی پچھلی صفوں میں ٹھہرا ہے تو اس کے اندر حسد کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔جس کی حدت اسکے اندر شدت کو جنم دیتی ہے ۔اور یوں شدت کی یہ آ گ اس کی انسانیت چاٹ جاتی ہے ۔اسی شدید آگ سے جلی انسانیت کی لاش سے تعصب کی وہ سرانڈ اٹھتی کہ جو ذات سے لیکر کائنات تک کی ہر چیز کا ناک ” جلا ” ڈالتی ہے ۔ قصہ کوتاہ……………گندگی خارج میں ہو تو تعفن کا سبب ہوتی ہے
اور………………………………… باطن میں ہو تو تعصب کا

World

World

اگر ہم نے اس سرانڈ سے اپنی ذات اور کائنا ت کو بچانا اور اس دنیا کو پھر سے رہنے کے قابل بنانا ہے تو ہمیں تعصب کی جگہ محبت کو فروغ دینا ہو گا کہ محبت ایک فرد سے لیکر معاشرے تک کے ہر فرد کی بنیادی اور اولین ضرورت ہے ۔ اور یہی وہ ”ماسٹر کی ” جس کی مدد سے ہم ہر مسئلے کے ڈیڈ لاک کا لاک باآسانی کھول کر معاشرے میں حل پیدا کر سکتے ہیں کہ ہم نے اب تک تو صرف مسئلے ہی پیدا کئے ہیں۔

آئیں اپنے سماج کو پھر سے اس قابل بنا دیں کہ جہاں محبت کا پھیلاؤ ہر سمت پھیلا دکھائی دے ۔ اس کے لئے ہمیں بس اتنا کرنا ہے کہ اپنے اور اپنے بچوں کے اندر چھپے اس بچے کو زندہ رکھنا ہے کہ محبت کی ماسٹر کی جس کا واحد اسلحہ ہے ہاں قارئین یہ وہ چابی ہے کہ خواہشوں پر پڑے اکثر جس سے باآسانی کھل جاتے ہیں۔
کسی نے کیا اچھا کہا ہے

محبت جہاں ہے وہاں زندگی ہے
محبت نہ ہو تو کہاں زندگی ہے

Safder Hydri

Safder Hydri

تحریر:صفدر علی حیدری