جنسِ مخالف کی کشش مشت غبار کی تخلیق میں رکھ دی گئی ہے جس کا بنیادی مقصد خالقِ کائنات کا نسل انسانی کی افزائش کو آگے بڑھا نا تھایہ کشش ہمیں جانوروں انسانوں میں خوب خوب نظر آتی ہے آپ اگر جانوروں انسانوں کا مطالعہ کریں تو یہ دونوں جوڑے ایک دوسرے کا دیوانہ وار طواف کر تے نظر آتے ہیں۔ اِس جذبے کو محبت عشق کہا جاتا ہے یہ وہ جذبہ ہے جو امر بیل کی طرح ہڈیوں تک سرایت کر جاتا ہے رگوں میں خون کی جگہ یہ جذبہ گر دش کرتا نظرآتا ہے اگر ہم انسانوں کو مطالعہ کریں تو تقریبا سبھی انسانوں میں یہ جذبہ کم زیادہ موجود ہوتا ہے لیکن کچھ انسانوں میں یہ جذبہ عام انسانوں کی نسبت بہت زیادہ ہو تا ہے یہ وہ لوگ ہو تے ہیں جن کی تخلیق ہی عشق کی مٹی سے ہو تی ہے اِن کی طرزِ عمل گفتگو حرکات سکنات سے عشق کے پھوارے پھوٹتے نظر آتے ہیں کو چہ عشق کے یہ لاڈلے معصوم لوگ ہر دور میں دنیا کے ہر خطے پر انسانی تاریخ کے اوراق میں نظر آتے ہیں۔
بزمِ عشق کے مظاہر دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے جب کوئی انسان آتشِ عشق میں سوختہ جان ہو کر ماہی بے آب کی طرح تڑپتا نظر آتا ہے اِس جذبے کی پراسراریت بڑی عجیب ہے کہ متاثرہ شخص کو محبوب کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیںآتا ‘ محبوب کے ماتھے پر خوشی اور ناگواری کی ایک لہر پر محبوب تڑپ تڑپ جاتا ہے اکثر اِس جذبے کی شدت سے عاشق اپنی جان دولت بادشاہت تک محبوب کے ادنی اشارے پر قربان کر دیتا ہے کو چہ عشق کی تاریخ ایسے لازوال واقعات سے بھری پڑی ہے عاشقوں کی دنیا میں سب سے نازک موڑ اُس وقت آتا ہے جب محبوب ناراض گم یا نظروں سے اوجھل ہو جائے پھر تو عاشق دنیا مافیا بھول کر چاک گریبان کپڑے پھاڑ کر دیوانا وار ٹکریں مارتا نظر آتا ہے پھر محبوب کے علاوہ کچھ بھی یاد نہیں رہتا اللہ کبھی بھی کسی سچے عاشق کو اِس پل صراط سے نہ گزارے لیکن ہجر وجدانی کے ایسے واقعات اہل دنیا نے ہر دور میںدیکھے ہیں جب کو ئی عاشق محبوب سے بچھڑ کر بید مجنوں کی طرح لرزتا تڑپتا محبوب کی ایک جھلک کی بھیک مانگتا نظر آتا ہے ایسے سوختہ جان پھر درویشوں ولیوں کے آستانوں پر ماتھا رگڑتے نظر آتے ہیں اور پھر یہ درویش خاک نشین ایسے لوگوں کو عشق مجازی کے پل سے گزار کر عشقِ الٰہی کے سمندر میں لے جاتے ہیں خوش قسمت ہو تے ہیں وہ لوگ جنہیں کسی مسیحا کی صحبت مل جائے ایسا ہی ایک درد ناک واقعہ ہمیں بابا فرید کے حالات زندگی میںبھی ملتا ہے۔
جب عشقِ مجازی کا ایک سوختہ جان محبوب کے ہجر میں تڑپتا سلگتا بارگاہِ فرید میں محبوب کے وصل کی بھیک مانگتا نظر آتا ہے حضر ت نصیر الدین چراغ دہلوی فرماتے ہیں اجو دھن کے پاس ایک گائوں تھا جہاں ایک تیل بیچنے والا تیلی رہتا تھا دیپال پور کے حاکم نے کسی وجہ سے گائوں کو تباہ برباد کر دیا مال مویشی لوٹ لیے اِس لوٹ مار میں فسادیوں نے تیلی کی خوبصورت بیوی کو مال غنیمت سمجھ کر ساتھ لے گئے تیلی بیچارے کی اپنی بیوی میں جان تھی اُس کے عشق میںمبتلا تھا دن رات اُس کو دیکھ کر جیتا تھا جب شریک حیات نظر نہ آتی تو بن پانی مچھلی کی طرح تڑپنے لگا دن رات کی تلاش کے بعد بھی جب محبوب بیوی نہ ملی تو کسی نے مشورہ دیا تمہارے دکھ اور تلاش کا علاج مسیحا بابا فرید کے پاس ہے اُن سے بیوی کی بھیک مانگو اب تمہاراعلاج آستانہ فریدی سے ہی ہے۔
آخر یہ سوختہ عشق بابا فرید کے دربار میںپیش ہوجاتا ہے دلوں کے مسیحا بابا فرید نے اِس پریشان حال خاک آلودہ شخص کو دیکھا تو پریشان ہو گئے اُسے محبت سے پاس بیٹھا کر کھانا منگوایا اور کہاآپ پہلے کھانا کھائو تو تیلی بو لا میرے بادشاہ زمانہ ہوا کھانا چھوڑ چکا ہوں جب تک اپنی جان کو نہ دیکھوں کھانا نہیں کھائوں گا پھر اپنے اوپر ہو ئے ظلم بیوی کی جدائی کا ساراواقعہ سنا دیا اور کہا اگر آپ کے در پر بھی میرے غم کا علاج نہیں تو میں خود کشی کر لوں گا بیوی کے بغیر زندہ رہنا نا ممکن ہے شہنشاہ ِ پاک پتن درماندہ شخص کی داستان غم سن کر رنجیدہ ہو گئے شیریں کلامی سے کہا تم کھانا کھائو و ہ ستر مائوں سے زیادہ شفیق حق تعالیٰ تمہاری مدد ضرور کر لے گا لیکن بیچارہ عاشق بابا فرید کے پائوں سے لپٹ کر بچوں کی طرح بلکنے لگا کہ میرے غم کا علاج کر دیں تو بابا جی نے فرمایا تم چند دن میرے پاس رہو کوئی راستہ نکل آئے گا عاشق ایک گو شے میں بیٹھ گیا لیکن جسم انگاروں پر کباب کی طرح آتش عشق کے ہجر میں بھسم ہو تا نظر آتا تیسرے دن ایک خاص واقعہ رونما ہوا حاکم دیپال پور نے کسی ناراضگی پر اپنے ہر کاروں کو حکم دیا کے اجو دھن کے منشی کو میرے دربار میں گرفتار کر کے لا ئو منشی کو گرفتار کر کے جب سرکاری ہر کارے لے جالے گئے تو منشی نے ہر کاروں کو پیسے دے کر کہا لے جانے سے پہلے مجھے بابا فرید کو سلام کر نے کی اجازت دو تو سپاہیوں نے لالچ میںآکر اجازت دے دی اب منشی زنجیروں میں گرفتار بابا فرید کے دربار میں پیش ہو تا ہے تو مسیحائے پاک پتن بو لے تیری یہ حالت کس نے بنا ئی تو منشی نے بتایا حاکم دیپال پو رنے میری گرفتاری کا حکم جاری کیا ہے۔
میرے پاس کو ئی سفارش نہیں آپ میرے لیے دعا کریں مستقبل شناس درویش کچھ دیر سوچھنے کے بعد بو لے اگر وہ حاکم تجھے معاف کرئے تجھ پر مہربان ہو جائے توتم راضی ہو جائو گے تو منشی بو لا جناب میں سارا مال و دولت آپ کے قدموں میں ڈھیر کر دوں گا تو بابا جی بولے تیرا سارا مال تجھے مبارک ہو تم یہ وعدہ کرو جب حاکم دیپال پور تم پر راضی ہو جائے تجھے انعام و اکرام سے نوازے تو جو کنیز تجھے دے گا وہ تم لاکر اِس تیلی کو دو گے تو منشی بو لا میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا [پھر بابا جی نے تیلی کو بلا کر اُسکے سامنے کیا تم کنیز اِس کے حوالے کرو گے تو تیلی بو لا میرے شہنشاہ میرے پاس بہت دولت ہے میں کئی کنیزیں خرید سکتا ہوں لیکن مجھے تو اپنی محبوب شریک حیات چاہیے اُس کے علاوہ دنیا کی تمام خوبصورت عورتیں میرے لیے راکھ کا ڈھیر ہیں تو بابا جی بولے تم اُس منشی کے ساتھ جائو اور اللہ کے کرم کا نظارہ کرو تیلی اداس ہو کر منشی کے ساتھ چلا گیا منشی کو قید کر دیا گیا تیلی باہر بیٹھ گیا اگلے دن جب حاکم دیپال پور کے سامنے منشی کو پیش کیا تو حاکم دیپال پور منشی کے چہرے کو دیکھتے ہی بولا تمہارا چہرہ سازشیوں کا نہیں لگتا تم سازشی نہیں ہو سکتے یقینا مجھے تمہارے بارے میں غلط معلومات دی گئی تھیں لوگ تمہارے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں پھر سپاہیوں کو حکم دیا اِس کی زنجیریں کھول دو پھر کر سی منگوا کر منشی سے کہا تم اِس پر آرام سے بیٹھ جائو لوگ حیران تھے کہ منشی کے آنے سے پہلے تو حاکم غصے سے آگ برسا رہا تھا۔
اب منشی پر اتنا مہربان کیسے ہو گیا اب حاکم منشی سے معذرت کر رہا تھا کہ مجھے غلط فہمی ہو ئی تھی پھر منشی کو اعلیٰ نسل کا گھوڑا ریشمی پو شاک تحفے کے طور پر دی ساتھ میں ایک برقعہ پوش عورت بھی دی کہ یہ سب تمہارے لیے ہیں اوریہ کنیز اب تمہاری خدمت کر ے گی منشی حیرتوں کے سمندر مٰں غرق غوطے کھا رہا تھا اور اُس درویش باکمال کا چہرہ یاد آرہا تھا جس نے کہا تمہیں انعام کرام کے ساتھ ایک کنیز بھی دے گا جو تم اِس تیلی کو دو گے منشی کو سمجھ آگئی تھی یہ سارا کرم اُس درویش بے نظیر کی دعائوں کا صدقہ ہے جس کے پائو ں چھو کر وہ آیا تھا جس کی دعائیں عرش معلی پر قبولیت پا گئیں تھیں حاکم دیپال پور اگر مہربان ہوا تھا تو اُس درویش خاک نشین کی دعائوں کے صدقے جو دلوں کا سلطان اور حقیقی مسیحا ہے پھر جب منشی کنیز کے ساتھ باہر آیا تو برقع پوش کنیز اُس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی پھر جب منشی اُس جگہ پر پہنچا جہاں تیلی بیچا رہ اداس آتش فراق میں بھسم بیٹھا تھا تو کنیز دوڑ پر اُس سے لپٹ گئی تیلی نا محرم عورت کو قریب پا کر گھبرا گیا اور بولا دور ہو جا مجھے اپنی بیوی کے علاوہ کو ئی عورت قبول نہیں ہے تو برقع پوش نے نقاب اٹھا کر کہامیں ہی تمہاری بیوی ہوں اپنی بیوی کو سامنے دیکھ کر تیلی کو سکتہ ہو گیا پھر چیخنے لگا حق فرید یا فرید میرا بابا میرا بابا بیوی حیران ہو کر بولی یہ تم کس کو پکار رہے ہو تو تیلی روتے ہوئے بو لا اُس مسیحا کو جس کی دعائوں کے صدقے تمہارا دیدار ہوا تم آج مجھے ملی ہو رورنہ میں تو آتش فراق کے ریگستان میں بھسم ہوچکا ہو تا منشی ساری بات سن کر گلو گیر لہجے میں بو لا خدا سلا مت رکھے ہمارے شہنشاہ کو جو دکھیاروں کے عظیم مسیحا ہیں پھر تیلی بیوی کے ساتھ بارگاہ فریدی میں پیش ہو کر مسیحا پاکپتن کے قدموں سے لپٹ کر رونے لگا تو بابا جی گلو گیر لہجے میں بولے اب اور کیا چاہتا ہے تو تیلی بو لا عشق کا وہ شعلہ جو کبھی نہ بجھے وہ خاص نگاہ کیمیا مجھ حقیر پر ڈال دے اے مسیحا تو پھر بابا جی نے نگاہ خاص سے تیلی کو عشق مجازی سے گزار کر عشق حقیقی کے رنگ میں رنگ دیا۔