میں اِنسانوں کے جنگل میں رہتا ہوں

Pakistan

Pakistan

اپنی اِسی سر زمینِ پاکستان پرمیں اپنی زندگی کی ساڑھے چار دہایاں گزار چکا ہوں، مگر آج مجھے اِس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ میں اِنسان تو ضرور ہوں مگر اِنسانوں کے جنگل میں رہتاہوں، اور جنگل میں کون ہوتے ہیں، آپ یہ بھی جانتے ہیں، شاید مجھے یہ احساس کبھی بھی نہ ہوتا مگر پچھلے دِنوں پیش آئے صرف ایک واقعے نے یہ احساس پیدا کر دیا کہ تب مجھے خود پر اور اپنے گردو نواں میں چلتے پھرتے اور اپنے مفادات کا خیال کرتے اِنسانوں پر بہت غصہ آیا۔

وہ واقعہ جس کا میں اگلی سطور میں تذکرہ کروں گا مگر اِسے اِنسانوں کے جنگل میں رہنے والے اِنسانوں کے سامنے بیا ن کرنے اور اِن کے کانوں میں اُنڈیلنے سے قبل یہ کہنا زیادہ بہتر سمجھتا ہوں کہ پہلے اپنے معاشرے اور سوسائٹی کے اِنسانوں کو اِن کا اصل چہر ہ دِکھادوں تاکہ اِن کے چہروں پر چڑھا حیوانگی اور درندگی کا خول اُترجائے یا اِس کے بعد اِنسانوں کے جنگل میںبسنے والے حیوان نمادرندے اپنے چہروں پر چڑھے خول کو خود کُھرج ڈالیں اِن اِنسانوں کے لئے عرض یہ ہے کہ”خُداکے ساتھ محبت کا دعویٰ اُس وقت تک غلط ہے جب تک آپ اِنسانوں کے ساتھ محبت کو اہم نہیں سمجھتے، اور اے اِنسانوں تمہاری شرافت اور قابلیت تمہارے لباس سے نہیں بلکہ تمہارے کردار اور فعل و گفتار سے ہوتی ہے، اور اے اِنسانوں..! تم یہ بھی سُنوکہ ہر زمانے کے ہر اِنسان کو اچھے ارادے اور بلند مقاصد سے بلندی عطا ہوئی ہے اور جسے یہ نصیب ہوگئی تو اُسے دنیا والے صدیوں تک یاد رکھتے ہیں۔

آج جس معاشرے میں میں زندہ ہوں ایسے بے حس معاشرے کے اِنسانوں سے ہی متعلق بہت پہلے ایک دانا یزد نے کہا تھاکہ” آدم کے بیٹو! اپنے بھائیوں کو اپنے ہاتھوں سے ذلیل و خوارنہ کرو کیونکہ میں نے دیکھاہے کہ پاگل کُتے بھی اپنا گوشت خود نہیں چباتے…” مگر افسوس ہے کہ میرے معاشرے کے اِنسان اِس سے بھی آگے نکل چکے ہیں، اور اَب ایسے میں اِنہیں خود سوچنا چاہئے کہ یہ فیصلہ کریں کہ اِنہیں اپنا مقام کیسے بلند کرناہے.؟ کہ اِنسانوں کے جنگل میں بسنے والے اِنسانوں کو یہ محسوس ہونے لگے کے اِن پر اِنسانیت غالب آچکی ہے اور یہ اِنسانیت کے معراج کو پہنچ چکے ہیں، مجھے اُمیدہے کہ میرے اِنسانوں کے جنگل میں بسنے والے اِنسان میر ی بات پر ضرور غور و خوص کریں گے اور میرے بیان کردہ اِس واقعے میں خود کو رکھ کر تولیں گے اور اپنا اپنا احتساب بھی کریں گے۔

عرض یہ ہے کہ جب سے میرے شہرمیں سردی اور اِس کی معاونت کے لئے چلنے والی یخ بستہ ہواؤں نے اپنا ڈیرا ڈالا، تب ہی سے میرے شہر کے ہر خاص و عام نے سردی اور برف جیسی ٹھنڈ پھیلانے والی ہواؤں کا مقابلہ گرم کپڑے اور گرم مشروبات اور خشک وگرم میوے جات سے کرنے کی ڈھان لی ہے۔

Poor Communities

Poor Communities

مگر میرے ہی شہر میں آباد کچھ کچی اور غریب آبادیاں ایسی بھی ہیں کہ جس کے محنت کش غریب مکین میرے دیس سے مجھ سے اور آپ سے زیادہ محبت کرتے ہیں، اور میرے دیس کی ترقی و خوشحالی میں اِن کا حصہ مجھے سے آپ سے بھی کہیں زیادہ ہے، جہاں مُلک کی تعمیر و ترقی اور اِس کی خوشحالی کے لئے میرا پسینہ گرتا ہے تو وہاں اِن لوگوں کا خون گرتا ہے،۔

مگر آج افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ جس دن میرے شہر میںیخ بستہ ہواؤں اور سردی کا راج زوروں پرہے اُس روز سے ہی مجھے اپنے شہر کی غریب آبادی کے مکین مُلک میں ہونے والی منہ توڑ سینہ زور مہنگائی کی وجہ سے مہنگے تو کیا سستے اور لُنڈے کے گرم کپڑوں اور گرم مشروبات اور خشک وگرم میوے جات خریدنے سے بھی محروم نظرآئے ہیں۔

ایسے میں میرا ایک روز ایک بازار سے گزر ہوا، جہاں لوگ سردی اور یخ بستہ ہواؤں سے بچنے کے لئے دُکانوں اور ٹھیلے والوں سے گرم کپڑے اورخشک میوے جات اور اللہ جانے کیا کیا کچھ خریدنے میں مصروف تھے، خریداروں کا رش تھا اور دُکانیں اور ٹھیلے بھی کچھ کم نہ تھے، کہ بازار کے ماحول میں یکا یک ایک شور برپا ہوا، اور ہر طرف چور چور اور پکڑو.پکڑو .کی صدائیں بلند ہوئیں، بازار میں بھگڈر مچنے کی وجہ سے بازار کا سکوت غارت ہو چکا تھا، ہر فرد چور کو پکڑنے میں لگ چکا تھا، آخرکار چند منٹوں کی محنت کے بعد چور ہاتھ لگ گیا تھا میں نے بھی چور کو قریب سے دِیکھا اور ،مجھے اپنے معاشرے کے اِنسانوں کے منافقانہ روئے پر دُکھ ہواکہ ٹھیلے کے مالک اور بازار میں موجود مجھ سمیت دیگرلوگوں نے ایک دس سال کے غریب معصوم بچے کو صرف اِس بنا پر چوبنا دیا تھا کہ اِس نے ایک ٹھیلے سے صرف ایک مٹھی بادام کے ساتھ ساتھ دوچاردانے چلغوزے اُٹھالئے تھے۔

بس اِس وجہ سے ٹھیلے کے مالک نے اِس معصوم کو چورسمجھ لیا تھااور سار ے بازار کو چیخ چیخ کرسر پراُٹھالیاتھا، مگر وہ شاید یہ بھول چکا تھا کہ اُس نے بازار کے جس راستے میں اپنا ٹھیلا کھڑا کیا ہواہے اِس یہاں کھڑا کرنے کے لئے اِس نے کتنوں کو رشوت دی ہوگی، اوراِسے بازارکے راستے میں ٹھیلا لگانے کی اجازت جس نے دی ہوگی، اِس نے قانون کی کتنی چوری کی ہوگی، اور کب سے یہ اور اِس جیسے بہت سے ٹھیلے والے اِس غیر قانونی عمل میں شامل ہوئے ہوں گے، اِس نے کتنوں کو کس کس طرح سے لوٹا ہوگا، اپنا سامان کئی گنا مہنگے داموں فروخت کر کے کتنی اخلاقی اور اسلامی تعلیمات کی چوری کی ہوگی، وہ یہ سب کچھ بھول چکاتھا، اگر اِسے نظرآئی تو اُس غریب معصوم بچے کے مٹھی میں بنداِس کے بادام اور چلغوزوں کے چنددانوں کی چوری ہی نظرآئی ،اور اِس پر یہ ظلم کہ باداموں اور چلغوزوں کے چنددانوںکی چوری کی پاداش میں ٹھیلے کے مالک نے دس سالہ بچے کو اتناماراکہ اِس کے چہرے اور جسم پر چوٹ کے گہرے نشانات نمایاں تھے، اور اِس پر یہ بھی کہ وہ باضدتھاکہ وہ جب تک اِس بچے کو پولیس کے حوالے نہیں کردیتاہے اُس وقت تک اِسے

چین نہیں ملے گا…جب تک میں نے دِیکھا وہاں موجود لوگوں نے ٹھیلے کے مالک کو بہت سمجھاناچاہ وہ ایساکچھ نہ کرے،جس سے غربت کا مارابچہ آگے چل کر کوئی پیشہ ورچوربن جائے، مگر اُس نے کسی کی نہ سُنی ….اِس کے بعد پھر کیا ہوا..؟یہ تو مجھے نہیں معلوم کیونکہ میں وہاں سے چلاگیاتھا…!مگراِنسانوں کے جنگل کے اِس معاشرے میں جس میں ، میں رہ رہاہوں اِس معاشرے کے اِس منافقانہ روئے پر مجھے بہت دُکھ ہوا، کہ ہم ایک مجبورو بیکس غریب معصوم بچے کو صرف چندبادام اور چلغوزوں کے دانوں کی چوری کے عوض تو چوربناکرپیش کرکے اِس کی ایسی کی تیسی کردیتے ہیں اوراِسے پولیس کے ہاتھوں میں دے کرا ِسے قانون سے بھی سزادلوانے کی ضدکرتے ہیں مگر اپنے ہی معاشرے میں جرائم پیشہ عناصر سمیت داداگری سے بھتہ خوری کرنے والوں، چوری ڈکیتی ، قتل وغارت گری اور بم دھماکو ںمیں ملوث عناصر کی نشان دہی کے لئے قانون کے رکھوالے جب سے ہم سے رابطہ کرتے ہیں یا مددمانگتے ہیں توہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنے ہونٹ سی لیتے ہیں اور اپنے کان اور آنکھیں کیوں بندکرلیتے ہیں ..؟اور تب ہم اِن جرائم پیشہ عناصر کوقانون کے ہاتھوں کیفرِ کردار تک پہنچانے میں قانون کی مددکیوں نہیں کرتے ہیں…؟آج ہم سب کو اپنے اِس منافقانہ روئے کے بارے میںضرورسوچناہوگاورنہ ہم اپنے اِس روئے کی وجہ سے اپنے معاشرے کے ہر مجبور و بیکس اور غریب کو چورتوبناسکتے ہیں مگر اپنے معاشرے کے بھتہ خوروں ، قتل وغارت اور کرپشن پھیلانے والوں کو قانون سے بچاکر اِن ناسوروں کو پلنے اور پھولنے کا موقعہ فراہم کرتے رہیں گے۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com
03312233463