تحریر : شیخ توصیف حسین یہ جانتے ہوئے بھی کہ انسان کی زندگی پانی کے بلبلے کی مانند ہے لیکن پھر بھی ابو آدم ایک دن سوتے ہوئے یکدم جاگ اٹھے اس دوران آپ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک فرشتہ وہاں پر بیٹھا کچھ لکھ رہا ہے جس پر آپ نے فرشتے سے پو چھا کہ آپ کیا لکھ رہے ہو جس پر فرشتے نے ابو آدم کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں اُن لوگوں کے نام لکھ رہا ہوں جو خداوندکریم سے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں جس پر ابو آدم نے فرشتے سے پو چھا کہ کیا اس لسٹ میں میرا نام ہے یا نہیں جس پر فرشتے نے ابو آدم کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس لسٹ میں آپ کا نام کہیں نہیں یہ کہہ کر فرشتہ وہاں سے چلا گیا کچھ دنوں کے بعد ابو آدم نے سوتے ہوئے روشنی کو دیکھا تو آپ کی آ نکھ کھل گئی۔
انہوں نے دیکھا کہ فرشتہ پھر کچھ لکھ رہا ہے جس پر ابو آدم نے دوسری بار فرشتے سے پھر پو چھا کہ اس بار کیا لکھ رہے ہو جس پر فرشتے نے ابو آدم کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس بار میں اُن لوگوں کے نام لکھ رہا ہوں جن سے خداوندکریم از خود بہت زیادہ پیار کرتے ہیں جس پر ابو آدم نے پھر فرشتے سے پوچھا کہ اس لسٹ میں میرا نام کہیں ہے جس پر فرشتے نے ابو آدم کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا نام اس لسٹ میں پہلے نمبر پر ہے جس پر ابو آدم نے حیرت سے فرشتے سے پو چھا یہ کیسے ہو سکتا ہے میں تو اتنا پہنچا ہوا نہیں ہوں جس پر فرشتے نے ابو آدم کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ اللہ تعالی کی بنائی ہوئی مخلوق سے بہت زیادہ پیار کرتے ہو بس اسی لیئے خداوندکریم نے آپ کو یہ شرف بخشا ہے۔
سوچو اور بتائو میرے وطن عزیز کے ذخیرہ اندوز تاجروں نفسا نفسی کے شکار تمام مکاتب و فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے دین اقتدار کے نشہ میں دھت بیورو کریٹس غریب اور بے بس افراد کو اپنی نفرت کا شکار بنانے والے سیاست دانوں انسانیت کا قتل عام کرنے والے مفاد پرست ڈاکٹروں علم کی روشنی کو فروخت کرنے والے اساتذہ کرام چند روپوں کے حصول کی خا طر ٹریفک کے نظام کو تباہ و بر باد کر کے انسانی جانوں کے ضیاع کے ذمہ دار ٹریفک پو لیس کے ارباب و بااختیار تھانوں کو طوائف کا کوٹھا بنانے والے پو لیس افسران صحافت کا لبادہ اُوڑھ کر انسانیت کی تذلیل کر نے والے صحافیوں سو چو اور بتائو کہ غربت نفرت و حقارت ذات برادری زبان مذہب اور صوبائی تعصب عقیدوں کا ٹکرائو ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصا فیاں اور غاصبیت وغیرہ۔
ALLAH
کیا یہی خداوند کریم کی مخلوق سے پیار کی باتیں ہیں کیا آپ ایسا رویہ اپنانے کے بعد خداوندکریم کے پیارو محبت کے حقدار اپنے آپ کو سمجھتے ہیں ذرا سوچو کہ اگر ابلیس جو اپنے آپ کو فرشتوں کا استاد سمجھتا تھا جس نے چپہ چپہ اور ذرہ ذرہ پر خداوندکریم کی عبادت کی تھی خداوندکریم کے صرف ایک حکم کو ٹھکرا کر لعنتی بن سکتا ہے تو پھر تمھارا کیا حشر ہو گا کیا تم خداوند کریم کی جا نب سے نازل کی گئی اس آیت کو بھول چکے ہو جس میں آپ نے فر مایا تھا کہ میں حقوق اللہ میں کو تاہی برتنے والے شخص کو تو معاف کر سکتا ہوں لیکن حقوق العباد میں کو تاہی برتنے والے شخص کو کبھی معاف نہیں کر سکتا اس کے باوجود بھی تم انسانیت کی تذلیل کرنے میں مصروف عمل ہو۔
ذرا سوچو کہ خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق نے ارشاد فرمایا تھا کہ اگر میرے دور اقتدار میں اگر کوئی کتا بھی پیاسا اور بھو کا مر گیا تو اس کا حساب بھی مجھے یوم آ خرت کو دینا ہو گا ذرا سوچو کہ خداوندکریم کے پیارے محبوب حضور پاک جن کے متعلق خداوندکریم نے واضح ارشاد فرمایا ہے کہ اے نبی اگر تجھے پیدا نہ کرتا تو کا ئنات میں کوئی چیز بھی پیدا نہ ہوتی نے اپنی پو ری زندگی خداوندکریم کی خو شنودگی اور انسانیت کی بقاکے حصول کی خا طر بھوک اور افلاس میں گزار دی جبکہ آپ کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام نے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے عزیز و اقارب کو قربان کر دیا جبکہ دوسری جانب ہمارے وطن عزیز کے علمائے دین ہیں جو داڑھی رکھنا تو سنت رسول سمجھتے ہیں۔
جبکہ حضور پاک کے باقی ماندہ اقدامات کو اپنانا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں جس کے نتیجہ میں یہ ملک و قوم کی دولت اس قدر ہڑپ کر چکے ہیں کہ یہ اپنے مو ٹاپے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہیں یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ایک مولوی صاحب جمعہ کے دن ماہ رمضان کے مقدس مہینے میں بڑی سریلی آ واز کے ساتھ مسجد میں ارشاد فر ما رہے تھے کہ اس مقدس مہنیے کے دوران روزے داروں کے روزے کھلوانا غریب اور بے بس افراد کی مالی امداد کرنے والوں پر دوزخ کی آگ ممنوع قرار دی گئی ہے اس گفتگو کو مولوی صاحب کی بیٹی نے جب سنا تو اس نے گھر میں موجود جتنی بھی رقم پڑی تھی وہ غریب اور بے بس افراد کی نظر کر دی جس کے متعلق سن کر مولوی صاحب فوری طور پر گھر پہنچے اور اپنی بیٹی کو بُرا بھلا کہنے کے بعد کہنے لگے یہ اعلان تو علاقے کے دوسرے افراد کیلئے تھا ہم پر یہ لاگو نہیں ہو تا۔
Pakistan
بالکل اسی طرح ہمارے وطن عزیز کے جتنے بھی علمائے دین ہیں ان کے احکامات دوسرے افراد کیلئے ہوتے ہیں ان پر لاگو نہیں ہوتے جس کے نتیجہ میں انھیں ہر قسم کی آ سائش حاصل ہیں بس یہی حالت ہمارے وطن عزیز کے ذخیرہ اندوز تاجروں کی بھی ہے جن کے آئے روز کی لوٹ مار کے نتیجہ میں لا تعداد غریب افراد ہسپتالوں میں اپنے گردے اور خون فروخت کر کے اپنے معصوم نچوں کی کفالت کر رہے ہیں ہمارے وطن عزیز کے تھانوں کی پو زیشن بھی کسی سے کم نہیں وہاں پر ظالم اور جا بر بااثر افراد کو انصاف فوری جبکہ مظلوم اور بے بس افراد انصاف کے حصول کی خا طر در بدر کی ٹھوکریں کھا کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔
تقریبا یہی حالت ہمارے وطن عزیز کے اساتذہ کرام کی بھی ہے جو مختلف طریقوں سے معصوم بچوں کا مال ہڑپ کرنے میں مصروف عمل ہیں جس کے نتیجہ میں استاد اور شاگرد کے در میان احترام کا رشتہ رفتہ رفتہ دم توڑ رہا ہے اور سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز جہنیں کبھی مسیحا سمجھا جاتا تھا آج ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب مریضوں کا خون چوس رہے ہیں جبکہ جو نیئر ڈاکٹروں نے تو غریب مریضوں کو اپنی تجر بہ گاہ بنا لیا ہے اگر ان کی تجربہ گاہی کے دوران کوئی غریب مریض بے بسی کی موت مرتا ہے تو انھیں اس کی کوئی پرواہ نہیں اگر ان کے اس ظالمانہ رویہ کے خلاف کوئی احتجاج کرتا ہے تو یہ ہڑتالیں وغیرہ کر کے اس مظلوم کو بے بس کر دیتے ہیں۔
قصہ مختصر کہ بس یہی کیفیت ہمارے وطن عزیز کے باقی ماندہ تمام اداروں کی بھی ہے جہاں پر کھلے عام انسانیت کی تذلیل کی جا رہی ہے کاش ہم سب ملکر اس پانی کے بلبلے کی مانند زندگی میں خداوندکریم کی خوشنودگی کی خا طر انسانیت کی بقا کے حصول کی خا طر کوشاں ہوتے تو آج ہم زمانے بھر میں رسوا نہ ہوتے اور نہ ہی ہم پر خداوندکریم کا قہر نازل ہوتا ذلت اور رسوائی کی صورت میں۔