تحریر: ایم سرور صدیقی والی کونین معراج شریف کے دوران سرِلامکاں تشریف لے گئے یہ مقام۔۔۔یہ مرتبہ۔۔یہ اعزاز ان سے پہلے کسی اور نبی کے حصہ میں نہیں آیا تھا یہ وہ لمحات تھے جب انوارو تجلیات کے سب پردے ہٹا دئیے گئے طالب و مطلوب نے جی بھر کر ایک دوسرے کا دیدار کیا اس موقع پر اللہ تبارک تعالیٰ نے پوچھا اے میرے محبوب ۖ میرے لئے کیا تحفہ لائے ہو؟
نبیوں کے سردار کے چہرہ ٔ انوار پر تبسم پھیل گیا آپ ۖ نے اتنا جامع، مکمل اور مدلل جواب دیا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔۔۔ فرمایا ۔۔۔ یا باری تعالیٰ!میں وہ تحفہ لے کر آیا ہوں جو تیرے پاس نہیں ہے۔۔۔سبحان اللہ خالق ِ کون ومکاں کے پاس کیا نہیں وہ تو ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔۔۔اللہ یقینا جانتاہے پھر بھی تجسس، شوق اور الفت سے دریافت کیا اے محبوب ۖ میرے لئے کیا تحفہ لائے ہو؟۔۔۔ آپ نے فرمایایا رب العالمین میں آپ کے حضور عاجزی لے کر آیاہوں یقینا اللہ کے پاس ہر چیزہے لیکن عاجزی نہیں۔۔۔ بلاشبہ اللہ تبارک تعالیٰ کو عاجزی بہت پسندہے اور طاقت رکھنے کے باوجود عاجز بندوں سے اسے بڑی محبت ہے غرور، تکبر اور اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھنا اللہ کو انتہائی ناگوار گذرتا ہے۔۔۔
عاجزی تکبر کا الٹ ہے اور اللہ کو عاجزی بہت پسند ہے لیکن خاکی انسان کو اتنی سی بات سمجھ نہیں آتی سمجھنے کو کیا یہ کافی نہیں کہ جو80,000سال فرشتوں کے ساتھ رہا اسے اللہ تعالیٰ نے40,000 سال جنت کا خزانچی رہنے کا اعزاز بخشا،30,000سال مقربین کا سرداررہا،20,000سال فرشتوں کو وعظ و تلقین کرتا رہا،14,000سال عرش کا طواف کرتارہا پہلے آسمان پراس کا نام عابد تھا۔۔۔دوسرے آسمان پراس کا نام زاہد تھا۔۔۔تیسرے آسمان پراس کا نام بلال۔۔ چوتھے آسمان پراس کا نام والی تھا۔۔۔پانچویں آسمان پراس کا نام تقی تھا ۔۔۔۔چھٹے آسمان پراس کا نام کبازان تھا اورساتویں آسمان پراس کا نام عزازیل تھا اب لوح ِ محفوظ پر اس کا نام ابلیس ہے لوگ اسے شیطان مردود کہتے ہیں اللہ سے اس کی پناہ مانگتے ہیں دیکھیں۔ سوچیں۔ غور کریں غرور، تکبر اور اپنے آپ کو دوسروںسے افضل سمجھنے کی خواہش نے اسے کیا سے کیا بنا ڈالا۔۔بے شک عبرت کا مقام ہے لیکن ہم میں سے بیشتر سمجھناہی نہیں چاہتے۔۔۔ تسلیم نہ بھی کریں اظہار ،انکار گومگو کی کیفیت یا کسی خاص جذبے کے تحت نہ مانیں تو پھرکیا۔۔ حقیقت بدل سکتی ہے؟ ۔۔۔نہیں ۔۔۔۔کبھی نہیں سچی بات تو یہ ہے کہ روپے پیسے یا مادی وسائل کے بغیر گذراوقات ممکن نہیں لیکن کیا اس کا یہ مطلب لے لیا جائے کہ جائز ناجائز۔۔حلال حرام اور اخلاقی اقدارکا قطعی کوئی خیال نہ رکھا جائے۔۔۔۔
Humility
یا پھر دولت اور اختیارات کے غرور و تکبر میں انسان کو انسان نہ سمجھائے ایسا کرنے والے انسانیت کے مقام سے گر جاتے ہیں انسان جو مخلوقات میں افضل ہے۔۔۔ اشرف ہے۔۔۔ممتازہے اس کا خاصایہی ہونا چاہیے کہ وہ عاجزی اختیار کرے بڑائی تو اللہ کو مقدم ہے اسی کو زیباہے واضح کہا ہے کہ زمین پر اکڑ کر مت چلو تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ یہاڑوںکی بلندی کو چھونے پر قادرہو۔۔۔ ہمارے آس پاس اردگرد کتنے ہی ایسے کردارہوںگے اکڑ، غرور اورتکبر جن کا شیوہ ہے بات بہ بات پر اپنے آپ کو افضل اور دوسروںکو کمترجاننا جن کا شیوہ ہے ۔۔ ان کو کوئی پسند کرنا پسندنہیں کرتا۔۔۔کبھی غورکرو تو محسوس ہو گا۔
دنیا میں کتنے لوگ پیدا ہوئے مرگئے ان کی تعداد شاید کروڑوں، اربوں یا کھربوں میں پہنچ چکی ہوگی ان میں کتنے ہوںگے جن کا نام محض دولت کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے قارون کے علاوہ شاید دوسرے تیسرے کا نام بھی آپ نہیں جانتے ہوں گے۔ لیکن بنی نوع انسان کی بھلائی کرنے والے آج بھی زندہ ہیں ان کا تعلق کسی بھی مذہب ہو وہ دنیا کے لئے ایک مثال بن گئے ہیں اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک ان کو امرکردیا اور تکبر۔غرور اور اپنے آپ کو افضل قراردینے والوں کو کوئی جانتا تک نہیں دوسروں کو کمتر اور گھٹیا جاننا ایک خوفناک بات ہے برتری کا احساس اور اظہار ایک نفسیاتی بیماری بھی ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے اکثر حکمران،اشرافیہ کے بیشتر لوگ اسی بیماری میں مبتلا ہیں جو انسان کو انسان بھی نہیں سمجھتے اسی طرز ِ عمل کی وجہ سے پاکستان میں ترقی نہیں ہورہی۔یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ اس ملک میں ٹیکس چور، بجلی چور ،کرپٹ اور گیس چور قوم کو اخلاقیات کا درس دیتے ہیں یہ بھی تو تکبر،رعونیت اور فرعونیت کی بدترین مثال ہے دیکھیں۔ سوچیں۔ غور کریں غرور، تکبر اور اپنے آپ کو دوسروںسے افضل سمجھنے کی خواہش نے شیطان کو کیا سے کیا بنا ڈالا۔۔بے شک عبرت کا مقام ہے لیکن ہم میں سے بیشتر سمجھناہی نہیں چاہتے۔۔۔ تسلیم نہ بھی کریں اظہار ،انکار گومگو کی کیفیت یا کسی خاص جذبے کے تحت نہ مانیں تو پھرکیا۔۔ حقیقت بدل سکتی ہے؟۔۔۔۔ بلاشبہ اللہ تبارک تعالیٰ کو عاجزی بہت پسندہے اور طاقت رکھنے کے باوجود عاجز بندوں سے اسے بڑی محبت ہے غرور، تکبر اور اپنے آپ کو دوسروںسے افضل سمجھنا اللہ کو انتہائی ناگوار گذرتا ہے۔۔۔
Nawaz Sharif
عاجزی تکبر کا الٹ ہے اور اللہ کو عاجزی بہت پسندہے اور جس نے اس رازکو پالیا گویا اس کے ہاتھ نسخہ ٔ کیمیا آگیا ہم مسلمان ہیں ہم میں عجز و انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہونا چاہیے ہندو مت میں دیکھیں بڑے سے بڑا ہندو لیڈر بھی ہاتھ جوڑ کر دوسروںکو نمستے کہتاہے یہ بھی عاجزی کی علامت ہے کبھی انڈین پارلیمنٹ کے اجلاس کی کارروائی دیکھنے کا اتفاق ہوتوغورکریں وہاں کے عوامی نمائندے کس قدر سادہ لباس میں ملبوس ہیں وہ اتنے قوم پرست ہیں کہ حیرت ہوتی ہے وہ سب انپے آپ کو ہندوستانی کہتے ہیں یہاں پنجابی ،سندھی بلوچ پٹھان کی تفریق نے اتنے مسائل پیدا کرکے رکھ دئیے ہیں کہ پورا وطن ِ عزیز پریشان ہے۔
جبکہ پاکستان کے وزیر ِ اعظم کروڑوں کی گھڑی ہاتھ پر باندھتے ہیں لاکھوں کا انہوں نے سوٹ پہناہوتاہے یہ ایک غریب ملک کے وزیر ِ اعظم اور ان کی کابینہ کے ٹھاٹھ باٹھ ہیں کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے کاش یہ فلسفہ ان کی سمجھ میں آجاتا کہ سادگی بھی عاجزی کی علامت ہوتی ہے اسلام نے تو ہمیں سادگی اور میانہ روی کا حکم دیاہے وسائل ہوتے ہوئے بھی سادگی اختیارکرنا کتنا اچھا عمل ہے لیکن اکڑ،غرور اور تکبرکااظہار تو ٹھاٹھ باٹھ سے ہی عیاںہوتاہے سادگی اور عاجزی کا آغاز حکمرانوںسے شروع ہوناچاہیے وہ قوم کیلئے رول ماڈل ہوتے ہیں اس کا اثر عوام پر لازمی پڑے گا تو اللہ کا نام لے کر اس کی شروعات کردینی چاہیے اس سے نہ صرف اللہ اور اس کا رسول ۖ خوش ہوگا بلکہ عوام کی زندگی آسان ہوجائے گی یہ خوشگوار تبدیلی بھی آغاز بھی ہو سکتا ہے۔