تحریر : وقار انسا کچھ لوگوں کو اللہ نے برمحل بولنے کی خاص صلاحیت دی ہوتی ہے-اور اگر اس میں مزاح کا عنصر غالب ہو تو سونے پر سہاگہ-کیونکہ حالات اور بات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں بات کو ٹال دیا جائے تو کسی بڑی پریشانی سے بچا جا سکتا ہے۔
اس لئے مزاح کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی پہلے وقتوں میں بھی قصہ گو لوگ مشہور تھے جو رات رات بھر محفل کو گرمائے رکھتے تھے بادشاہوں کی محافل میں ضرور موجود ہوتے تھے-اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے ایسے قصے سناتے جو دلچسپی کے ساتھ مزاح بھی برقرار رکھیں یہی وجہ ہے کہ کبھی رات بھر اور کبھی کئی راتوں میں ایک قصہ چلتا وقت کے ساتھ مزاح لکھا بھی جاتا رہا اور اہل علم اس سے لطف اندوز ہوتے – اور اکثر لفظوں کی برجستگی بے ساختہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ بن کر نمودار ہوتی – اور پڑھنے والا کچھ دیر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتا۔
Patras Bokhari
پطرس بحاری اردو کے ممتاز مزاح نگار شاعر اور مترجم بھی تھے کرنل محمد خان شفیق الرحمن سید ضمیر جعفری محمد خالد اختر کا طنزومزاح میں اپنا مقام ہے اور پھر انور مسعود کی طنزومزاح کا حسین امتزاج لئے شاعری اور انور مقصود کے برجستہ اور گہرے مکالموں نے ناظرین کو ھمیشہ محظوظ کیا۔
تھیٹر اور فلموں میں بھی ایسا کردار ضرور ہوتا – جو ناظرین کو دو تین گھنٹے بور ہونے سے بچاتا – اس کے علاوہ بہت بہترین لکھنے والوں کے ساتھ کردار نبھانے والے اداکار بھی موجود ہیں- مزاحیہ پروگرام کو چار چاند لگانے کے لئے معین اختر کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں اور عمر شریف کا کسی پروگرام میں ہونا اس بات کی علامت ہے کہ پروگرام ہلکا پھلکا اور چہرے پر ہنسی ہونٹوں پر قہقہے بکھیرے گا بشری انصاری کی چلبلی باتوں سے کس کو انکار ہے۔ پھر بھیڑ چال نے تھیٹر میں ایسے فنکار بھر دئیے کہ انسانیت شرمائے ان ڈراموں کو دیکھنے کا تصور بھی محال ہے جہاں واہیات جملے نیم برہنہ خواتین کے آدھے ادھورے ملبوسات اخلاق کو مسمار کرتے مناظر اور گالی کلوچ عام سی بات بن گئی اور ان گالیوں اور بے ہودہ جملوں میں ماں اور بہن کا ذکر اور گالیاں اس ڈرامے کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جانے لگیں۔
Moin Akhtar with Umer Sharif
ایسے تھیٹر طنز ومزاح سے دور بے ہودگی اور بے حیائی کا عکاس بنے-جو نہ تو شریف اور پڑھے لکھے لوگ دیکھتے ہیں اور نہ ہی تفریح طبع کے لئے فیملی ساتھ لانے کا تصور کیا جا سکتا ہے اسی لئے یہ تھیٹر ان پڑھ اور عیاش اور اوباش لوگوں کے دیکھنے تک محدود ہو گئے اور یوں تھیٹر کا باب مفقود ہو گیا اور ان کی جگہ ٹی وی چینلز نے لے لی۔
ٹی وی چینلز پر اب طنزو مزاح کے کافی پروگرام چلنے لگے ہیں – لیکن ایک ہی طریقہ کار پر جہاں دو چار مزاحیہ کردار بٹھا دئیے گئے ہیں-جو اچھے خاصے پروگرام پیش کرنے والے کا بھی بیڑہ غرق کر رہے ہیں ہر ایک دو جملوں کے بعد وہ ایک دوسرے کی شکل وصورت رنگ روپ اور جسامت اور قد کاٹھ کا مذاق اڑاتے اور اپنے تئیں اس کو مزاح گردانتے ہیں جب کہ مزاح اور مذاق دو مختلف باتیں ہیں۔
پروگرام کے ہوسٹ کی باتوں کا مزا بھی کرکرا ہو جاتا ہے -اور ایسے لگتا ہے جیسے پروگرام کا مقصد ایک دوسرے کے مکالموں کی بجائے ردعمل کے طور پر کہا گیا سنگین جملہ ہے ایک پروگرام میں ایک خاتون کو صرف ہنسنے پر مامور کیا گیا ہے – ابھی جملہ پورا ہوتا نہیں کہ ہنسی کا دورہ پے در پے پڑنے لگتا ہے اور ناظرین بیچارے سمجھنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں -پہلے ایک اور بعد میں دو خواتین کو اس کام پر مامور کیا گیا کہ مل کر اتنا ہنسیں کہ دیکھنے والا آپ کی ہنسسی سن کر ہنسنے پر مجبور ہو جائے۔
Morning Shows
جب کہ پروگرام کا اصل حسن یہ ہے کہ ان باتوں کو سن کر ناظر ہنسے بغیر نہ رہ سکے اور نہ ہی پروگرام کی کامیابی کی یہ ضمانت ہے کہ خاتون ہی بے تکا ہنستی نظر آئے۔ پلان شدہ مارننگ شوز نے ناظرین کی دلچسپی پہلے ہی ختم کر دی ہے ہولناک اور خوفناک خبروں کے بعد ذہن بٹانے کو پروگرام دیکھنا چاہیں تو بھی اکتاہٹ ہونے لگتی ہے – اگر ان پروگرامز پر غور کر کے بے تکی باتوں کو حذف کیا جائے تو پروگرام معیاری ہو سکتے ہیں ذرا سوچئے کہ یہ پروگرامز کیا تفریح طبع کا باعث بن رہے ہیں۔