موراھام، ہنگری (جیوڈیسک) اتوار کے روز جب موراھام کے پرسکون شہر میں پولنگ شروع ہوئی اور ووٹر آہستہ آہستہ آنا شروع ہوئے تو ان میں سے بہت سوں نے یہ کہا کہ انہوں نے ‘نہیں’ پر ووٹ دیا کیونکہ وہ پناہ گزینوں یا تارکین وطن کی مزید آمد نہیں چاہتے۔
ایک ریٹائرڈ خاتون زوچ استاوان نےبتایا کہ میں نےووٹ ڈالا اور تارکین وطن کے لیے ‘نہیں ‘ پر مہر لگائی۔ یہاں کافی لوگ موجود ہیں ، دنیا ہمیں معاف کرے۔ہم وہ قوم نہیں ہیں جو غیر ملکیوں سے نفرت کرتی ہے لیکن اس ملک کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔
جب ہنگری کا متنازع ریفرنڈم ختم ہوا تو ووٹ دینے کے لیے آنے والوں کی تعداد ووٹنگ کو مستندقرار دینے کے لیے درکار کم از کم 50 فی صد ٹرن آؤٹ سے کم دکھائی دی۔
لیکن حکمران پارٹی کے عہدے داروں نے پھر بھی اس ووٹنگ کو عوام کی فتح قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا جنہوں نے منتخب قومی عہدے داروں کی خواہشات پر یورپی یونین کے مینڈیٹ کو مسترد کر دیا۔
ریفرنڈم میں ہنگری کےعوام سے پوچھا گیا تھا کہ آیا وہ اٹلی اور یونان میں پھنسے ہوئے پناہ کے ایک لاکھ ساٹھ ہزار طلب گاروں میں سے لگ بھگ 1300 کو ہنگری کے لیے یورپی یونین کے کوٹے کے مطابق ملک میں قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔
سربیا کے ساتھ ہنگری کی سرحد کے قریب موراھام کے علاقے میں 2015 کے موسم خزاں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے خیموں میں ڈیرے ڈالے جس سے مقامی رہائشیوں اور پناہ گزینوں کے درمیان کشیدگیاں پیدا ہوئیں۔
لیکن موراھام میں، جہاں اس مسئلے پر کافی تناؤپایا جاتا ہے، ووٹ دینے کے لیے آنے والوں کی تعداد کم رہی اور قانون کے مطابق اس ریفرنڈم کی منظوری کے لیے اہل ووٹروں میں سے پچاس فی صد کا ووٹ ڈالنا لازمی ہے۔ عہدے داروں کا کہنا ہے کہ تمام ووٹوں کی گنتی پرکچھ دن لگیں گےاور کیونکہ ‘نہیں ‘ پر مہر لگانے والے واضح اکثریت میں ہیں اس لیے یہ امکان نہیں ہے کہ کافی لوگوں نے ووٹ ڈالے تھے۔
دن بھر حکومت کی جانب سے ووٹروں کو ٹیکسٹ پیغامات اور ای میلز کے ذریعے یہ زور دیا جاتا رہا کہ وہ خطرے سے بچیں اور ‘نہیں ‘ پر ووٹ ڈالیں۔
اگر یہ ریفریڈم منظور ہو جاتا ہے تو بھی یہ زیادہ تر علامتی ہوگا کیونکہ یورپی یونین ہنگری سے مزید پناہ کے خواہش مندوں کو قبول کرنے سے متعلق اپنے تقاضے سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔