“بھوک کے خلاف جنگ، ایٹم بم کے سنگ”

تیس لاکھ آدمی بیت اللہ کا پردہ پکڑ کر روتے ھیں 29ویں رمضان کو۔ امام کعبہ ایک گھنٹہ دعا کرا کر رو رو کر ہلکان ھو جاتا ھے۔ پیچھے تیس لاکھ آدمی رو رو کر آمین کہتے ھیں۔ پھر بھی آسمان کے دروازے نہیں کھلتے۔ اللہ کو تو کوئی ایک پکارے تو عرش میں ھلچل شروع ھو جاتی ھے، آسمان کے دروازے کھڑکھڑانے لگتے ھیں۔۔۔۔
ساری رات ننگے ناچ اور فوٹو دیکھتی نسل،
تجارت سود پہ ھو،
اولادیں ماں باپ کی نافرمان ہوں،
راتوں کو شراب و زنا ہو،
بازراوں میں تجارت کی نام پر جوا، سود و سٹہ ھوں،
ھر ایک چیز میں ملاوٹ ھو،
ظلم و بربریت کا بازار گرم ھو،
دھوکہ دھی عام ھو،
جھوٹ کا بول بالا ھو،
مظلوم کی آہیں آسمان تک پہنچتی ھوں اور اسکی داد رسی کرنے والا کوئی نہ ھو،
لڑکیاں بے حجاب ھوں،
لڑکی کو پیار کے نام پر پھنسانا اعزاز ھو،
اپنی عزت اعلی اور دوسرے کی عزت کو ادنی جس معاشرے کا روز کا معمول ھو،
قتل و غارت عام ھوں،
حکومت کے نام پر فرعونیت ھو اور افسر شاہی کے نام پر خیانت اور بددیانیتی ھو ،
تو ھماری دعائیں کیسے قبول ھوں گی۔۔۔
“بھوک کے خلاف جنگ، ایٹم بم کے سنگ”پاکستانی قوم آج “بھوک” کے عالمی دن کے موقع پر اپنا “یوم تکبیر” ملی جوش و جذبے سے منا رہی ہے.زرد رنگت، ویران آنکھوں، مدقوق چہروں اور کمزور جسموں کے ساتھ خط غربت سے نیچے جانوروں سے بھی بدتر زندگی ڈھونے والے “نادرا” کے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ ہولڈر” تیرہ نصیب پاکستانی آج بھی بھوک اور غربت پر “تکبیر” پھرنے کے منتظر. یوم تکبیر ذندہ باد