تحریر: ساجد حسین شاہ قدرت نے انسان کی طبیعت میں آس اور امید کا سلسلہ نہ رکھا ہوتا تو وہ پہلی ہی ناامیدی پر ختم ہو جاتا مایوسی سے مر جاتا اسی امر کی وجہ سے انسان ہر بار اپنی امید کو قائم رکھتے ہوئے بارہا کوششں جاری رکھتا ہے اور جو لوگ امید کا دامن چھوڑ دیتے ہیں وہ مایوسی کے اندھیروں میں گھرِے رہتے ہیں اور اسی طرح نا تمام ہو جاتے ہیں۔
ایسی ہی کچھ امید کا دامن تھامے وہ بدنصیب سیسہ پلا ئی ہو ئی دیوار کی مانند کھڑا رہا اور مسلسل اس بحث میں سب کو الجھا ئے ہو ئے تھا کہ کچھ بھی ہو مگر اسے کام کرکرنے کا مو قع فراہم کیا جائے تا کہ وہ کچھ رقم کما کر اپنے اور اپنے خا ندان کی بھوک مٹا سکے اپنی مجبوریوں کا اظہا ر کر کے ہمدردیاں حا صل کر نے کی تگ و دو کر تارہا آج صبح مزدور کی غیر حا ضری اور کام کے اضا فی بو جھ نے ٹھیکدار کو مجبور کر دیا کہ وہ اسے اڈے سے لے کر آ یا تھا مگر ابھی آ دھا دن ہی گزرا کہ مز دور آ گیا تو مستری بضد تھا کہ وہ کچھ معا وضہ اپنے کام کا لے اور چلا جا ئے اسکی آہ و زار تو ٹھیکیدار کے دل کو موم کر نے میں کا میا ب ہو گئی مگر مستری کو وہ پیجھے ہٹا نے میں نا کام رہی مستری بار بار یہی کہہ کر ٹھیکیدار کو مطمئن کر نے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ کام سے نا واقف ہے اسے کام پر رکھنا پیسے اور وقت دونوں کا ضیاع ہے بلکہ کچھ غلط کر کے سا ری محنت کو را ئیگا ں کر دے گا پہلے تو مزدور بحث میں مصروف رہا مگر جب ہار ہو تی معلوم ہو ئی اور ما یو سی نے اسے آن گھیرا تووہیں ز مین پر ڈھیر ہو گیا لوگوں نے اسے اٹھا یا اور ہسپتال لے کر جا نے لگے لیکن زندگی اسکا دامن ہمیشہ کے لیے چھو ڑ گئی اور وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا ٹھیکدار نے ذمہ داری کا مظا ہرہ کر تے ہو ئے اسی جگہ گیا جہاں سے وہ صبح اسے لے کر آ یا تھا تا کہ اسکے با رے میں کچھ معلومات حا صل کر سکے کیو نکہ اسکے پاس ایسے کو ئی دستا ویزات مو جود نہ تھے جس سے اسکی شنا خت ہو سکے۔
وہا ں روز گار کے منتظر دوسرے لو گوں نے بتا یا کہ وہ پہلی مر تبہ ہی یہاں آ یا تھا اور فلاں علا قے کا رہنے والا ہے اسکی لاش کو ایمبو لنس میں ڈالا اور اسکے علا قے جا پہنچے مسا جد میں اعلان کر وا ئے گئے تھو ڑی ہی دیر بعد لو گوں نے اسکی شنا خت کر لی بلا آ خر اسکی لاش اسکے گھر پہنچا دی گئی جہاں سے وہ آ ج صبح سورج نکلنے سے پہلے روز گار کی تلاش میں الوداع ہوا تھا گھر میں اسکی لاش دیکھ کر ایک کہرام مچ گیا اسکی بیوی بین کر تے ہو ئے کہہ رہی تھی کہ آج تو تم آ ٹا لینے گھر سے نکلے تھے ا وریہ کیا تم تو کفن اوڑھے ابدی نیند سو گئے اور ہمیں یوں ہی بھوکا چھوڑ گئے مر حوم کچھ عر صہ قبل کھیتی با ڑی کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پا ل رہاتھامگر حا لات نے کچھ ایسی کر وٹ بدلی کے کھانے کے لالے پڑ گئے کئی دنوں سے وہ اِدھر اُدھر سے ما نگ کر زندگی کا پہیہ رواں دواں رکھے ہو ئے تھا اور آ ج اس امید سے گھر سے نکلا کہ کچھ کما کر لا ئے گا مگر اجل نے اسے یہ مو قع فر اہم نہ کیا وہ خود تو ان تمام دکھوں سے بہت دور چلا گیا مگر گھر والوں کو بے آ سرا کر گیا۔
پاکستان میں آ ج بھی نا جا نے ایسے کئی خا ندان ہیں جو پر آ سا ئش ز ندگی تو در کنا معمول کی بنیادی سہو لتوں سے بھی محروم ہیں اس دردنا ک کیفیت کا اندازہ آ پ اور میں کیا لگا سکیں گے کہ جب کو ئی لا چا ر با پ گھر لو ٹتا ہے اور اسکے خا لی ہا تھوں کی طرف اسکے بچے حسرت بھری نگا ہوں سے دیکھتے ہیںاور اسکے پاس انکو دینے کے لیے سوائے دلا سے کے کچھ نہیں ہو تااور جس کر ب اور تکلیف سے وہ گزرتا ہے اسکا اندازہ وہی لگا سکتا ہے اس غر بت کی ایک بڑی وجہ پیسے کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جسکی بدولت امیر لو گ مزید امارت حا صل کر رہے ہیں جبکہ غریب مز ید غربت کے بو جھ تلے دبتا جا رہا ہے غر بت کی بڑھتی ہو ئی شرح کا سہرا پا کستان میں بہت سے لو گوں کو مناسب روزگارنہ ملنے کے سر پر بھی ہے بہت سے نو جوان روز گا ر کی تلاش میں ڈگر ڈگر ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں مگر یہاں ایک پہلو جس پر میںروشنی ڈا لنا انتہا ئی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہما رے ملک میں بہت سے لوگ ایسی سستی اور کا ہلی کا شکار ہیں کہ انکی یہ عا دت انھیں روزگار پر مستقل قدم ٹکانے ہی نہیں دیتی۔
Poverty
اپنے خا ندان اور دل کو تسلی دینے کی خا طر وہ بار با رنئے ر روز گارکی تلا ش میں بھٹکتے رہتے ہیں اور ایسے نو جوان پھر غیر قا نو نی حر بے بھی استعمال کر نے سے نہیں کتراتے ہما رے ملک میں ایسے خا ندانوں کی بھی کمی نہیں ہے جو اپنے بچوں کو منا سب طبی سہو لیات فراہم نہیں کر سکتے اور ایسے بچے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر اپنے والدین کے سا منے جان دے دیتے ہیں۔
یہ غر بت وافلاس ہمیں وراثت میں ملی ہے 1947 میں جب بر صغیر پا ک وہند کی تقسیم ہو ئی تو پا کستان کے حصے میں صرف ایک یو نیورسٹی ایک ٹیکسٹائل مل اور دیگر وسا ئل بھی نہ ہو نے کے برابر آ ئے یہ تو ہمارے سفر کا آ غاز تھا مگر اب تک ہم غر بت کے خلاف جنگ میں کا میا بی حا صل نہ کر سکے 2014 میں ورلڈ بینک کے سروے کے مطا بق اگر ہر آ دمی کی آ مدنی 1.25ڈالر فی یو میہ ہو تو پا کستان کی کل آ با دی کے21.04% لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اگر آمدنی بڑ ھا کر2 ڈا لر فی یو میہ کر دی جا ئے جو کہ بین الا قوا می معیار ہے تو 60.19%لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کر تے نظر آ ئیں گے پا کستان میںبر آ مدات کی نسبت درآ مدات زیا دہ ہے حتی کہ را مٹیریل بھی درآ مد کیا جا تا ہے۔
Poor people
اگر درآ مد کر نے کے بجا ئے اپنے مو جو د ہ قدرتی وسا ئل کو بروئے کار لا یا جا ئے تو وہاں بسنے وا لے لو گوں کو روز گا ر مہیا کیا جا سکتا ہے ہما رے دین اسلام نے بھی ہمیں غربت ختم کر نے کے لیے ایک جا مع لا ئحہ عمل مہیا کیا ہے ہما رے ملک میں اکثریت مسلما نوں کی ہے مگر ہما رے ہاں زکوٰة دینے کا رواج کچھ عام نہیں حالانکہ زکوٰة اسلا م کے پا نچ ستون میں سے ایک ستون ہے ہمارے اکثر پا کستانی زکوٰة نہ دینے کی دلا ئل ڈ ھو نڈ تے ہو ئے نظر آ تے ہیں ا گر ہم سب جو ز کوٰة دینے کے زمرے میں آ تے ہیں اپنی زکوٰة مذہبی اور اخلا قی فریضہ سمجھ کر دیں تو کتنے ہی بجھتے چو لھے ہم پھر سے جلانے میں مدد کر سکتے ہیں کیو نکہ آ ج کل کے اس خو د غر ض اور نفسا نفسی کے دور میںتوہم اپنے ہمسا یوںسے بھی غا فل نظر آ تے ہیں اللہ تعا لیٰ ہمیں حقوق العباد ادا کر نے کی تو فیق عطا فر ما ئے کیو نکہ حقوق اللہ کی ہمیں شاید اگر اللہ نے چا ہا تو معا فی مل بھی جا ئے گی لیکن حقو ق العبا د کی معا فی نہیں ملے گی۔
تحریر: ساجد حسین شاہ ریاض، سعودی عرب engrsajidlesco@yahoo.com 00966592872631