امام عدل سے مائی لارڈ تک

Karbala

Karbala

ہر دور کا اپنا یزید ہوتا ہے۔ اور ہر عہد کا اپنا حسین ثانی ہوا کرتا ہے۔ ہر دور میں کربلائیں سجا کرتی ہیں۔ اور ہر کربلائے وقت میں۔ کوئی نہ کوئی یزید عصر کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر۔ مصلحتوں کے ہاتھ پر۔ بیعت کرنے سے انکار کرتا رہا ہے۔ وئہ لمحہ بڑا کٹھن ہوتا ہے۔ جب مصلحتیں برہنہ ہو کر لذت گناہ کی دعوت عام دے رہی ہوتی ہیں۔۔اور انکار سے۔ اگلی سانس کا اعتبار کھو رہا ہوتا ہے۔ اقرار کی اپنی مصلحتیں ہوتی ہیں۔اور انکار کی اپنی طاقت۔ وئہ لمحہ جب استقامت سے کھڑا ہونا ناممکن ہو رہا ہوتا ہے۔ تو فطرت کربلا کے حسن سے اشکار کر کے۔ خوف کو سکون کا لباس پہنا دیتی ہے۔۔اور پورے قد سے کھڑا رہنے کی طاقت نصیب کر دیتی ہے۔

امام عدل: ظلم و جبر کی تاریخ نے وئہ لمحے امر کر لیئے۔ جب اندھی طاقت کے ہاتھ اپکے بالوں تک پہنچے تھے۔ اور ظلمت کے سیاہ اہنی پنجوں نے اپکے گریبان پر اپنی گرفت سخت کی تھی۔ اسی لمحے شاید اپ نے سوچا ہو کہ اگر میں اس امتحان سے سرخرو ہو کر جب دوبارہ مسند انصاف پر بیٹھا تو ظلم و جبر نا انصافی اندھی طاقت اور کرپشن کا نشان مٹا دوں گا۔ مشکل ترین وقت میں انصاف اور صرف انصاف کا سوچا۔ تو پھر اسی لمحے۔۔ سترہ کروڑ دلوں کی دھڑکنیں۔۔ اپ کے دل سے ہم اہنگ ہوگئیں۔۔ چونتیس کروڑ انکھیں فرش راہ ہوئیں۔۔کروڑوں قدم اپ کے ہمقدم ہوئے۔۔وکلاء کالے کوٹ خون سے سرخ کرکے انصاف کے طالبان ہوئے۔۔ سڑکیں انصاف کے لیئے بہنے والے خون سے لذت اشنا ہوئیں۔۔تحریک کو انصاف کے شہداء کا فخر نصیب ہوا۔۔ میڈیا نے جب میدان سنبھالا۔۔ تو ججوں کی بحالی کی جدوجہد۔۔قومی تحریک میں ڈھل گئی۔۔ اقوام عالم متوجہ ہوئیں۔۔نوجوان اپنا گرم گرم خون پیش کرنے کو بے تاب ہوئے۔۔ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اپنی رداوئں کو انصاف کے علم بنا کر نکلیں۔ طلباء نے سڑکوں اور چوراہوں کو انصاف کی یونیورسٹی بنا لیا۔

ننھے بچوں نے سڑک کنارے پھول پتیاں نچھاور کیں۔ اور اس قدر نچھاور کئیں کہ۔ پھول پتیاں گلستانوں اور بازاروں میں نایاب ہو گیئں۔ پورا ملک فرد واحد کے پیچھے پیچھے۔وئہ جدھر جاتا۔ سب انسانوں کا رخ اسی طرف ہو جاتا۔ سڑکیں جام ہو گئیں۔ نظام منجمند ہو گیا۔۔ہر کوئی اپنے دکھ سمیٹ کر ۔۔ مسائل سے منہ مو ڑ کراپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو بے تاب ہوا۔ نہ کوئی وعدہ۔۔ نہ کوئی مطالبہ۔ صرف یقین۔ اور کامل یقین۔ کروڑوں انسانوں کا یقین۔ فرد واحد پر یقین۔ کہ جب وئہ دوبارہ تخت انصاف پر بیٹھے گا۔ تو پھر انصاف۔ اور صرف انصاف ہو گا۔

امام عدل: انصاف کی قومی تحریک رنگ لائی۔ عدلیہ بحال ہوئی۔ اپ امتحان میں سرخرو ہوئے۔ اقوام عالم نے اپکی جدوجہد کو سراہا۔ عالمی ادارے اپکو ایوارڈ دینے پر فخر محسوس کرنے لگے۔ ظلم وجبر کی سیاہ رات سے انصاف کی فتح کا سورج چمکا۔ جو بے بس۔ مجبور۔ کمزور اور انصاف کے طلبگاروں کے چہرے روشن کر گیا۔

امام عدل: پھر اپ کے پرجوش۔ اور انصاف پر مبنی معاشرے کی تکمیل کے لیئے اقوال زریں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے زینت بنتے رہے۔اس سلسلہ میں اپکی مخلصانہ کاوشوں پر کسی کو کوئی ابہام نہیں تھا۔۔اپ کے اقوال زریں کا پھر سے اعادہ کرنے کی ضرورت ہو گی۔۔ اپ نے فرمایا تھا کہ۔۔جس معاشرے میں عدل و انصاف نہ ہو وئہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔۔ مہذ ب اور وحشی معاشرے کے درمیان فرق صرف قانون کی بالا دستی ہے۔۔عوام کے تحفظ کی خاطر،قانون کے خلاف کوئی سسٹم برداشت نہیں کریں گے۔۔اب لوگوں کو احساس ہو رہا ہے کہ ہمارے حقوق کسی صورت پامال نہیں ہونے چاہیے۔ انصاف کی فراہمی کاایسا نظام ہو جس میں کسی کے حقوق پامال نہ ہوں۔۔اب معاشرہ انصاف کے بغیر زندہ نہیں رہنا چاہتا۔۔ نچلی سطح پرانصاف کی فراہمی کرنی ہے۔۔ تاکہ عوام کے ساتھ انصاف ہو اور کوئی بھی ان کے حقوق سلب نہ کر سکے۔

Justice

Justice

امام عدل: اپ نے بے توقیر۔ ظلم و جبر سے پناہ طلب کرتے۔ انصاف مانگتے انسانوں کی عزت افزائی کرتے ہوئے فرمایا۔۔ میں اس بات پر عوام کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے۔ ہم پر بھروسہ کیا۔۔ پورا ملک اپ کے اس بیان سے سرشار ہوا۔۔ انصاف کے یقین نے اہل وطن کے قلو ب کو طاقت بخشی۔۔ اپ نے عدلیہ کی بحالی کو ایک نئے دور کا اغاز کہا۔ اور اس تحریک کو انقلاب اصغر کا درجہ دیا۔ قومی عدالتی پالیسی پر اپ نے ارشاد فرمایا۔ یہ نئی پالیسی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ۔۔ قانون کی نظر میں سب کے یکساں ہونے کے متعلق۔۔أئینی اصولوں پر سختی کے ساتھ عمل کیا جائے۔ قانون کے اصولوں پر کاربند رہنا قوم کی تعمیر و ترقی کے لیئے ضروری ہے۔۔یہی معاشی ترقی اور سماجی بہبود کے لیئے یقینی نسخہ کیمیاء ہے۔ قانون سوسائیٹی کے غریب اور پسماندہ طبقات کے حقوق و مراعات کا تحفظ کرتا ہے۔۔یہ ظلم و ناانصافی کی زنجیروں کو توڑتا ہے۔ اپ نے یہ بھی فرمایا کہ ہمارا نظام انصاف وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے۔ ابھرتے ہوئے حالات اورچیلنجوں کے اوقات میں۔ اخری پناہ گاہ ہو گا۔

امام عدل: قانون کی تشریح کیلئے اپ لارجر بینچ تشکیل دیتے رہتے ہیں۔ عوامی بھلائی۔۔مفاد عامہ۔ اور قومی عدالتی پالیسیوںکو چیک کرنے کیلیئے۔ ایک عوامی لارجربینچ بھی تشکیل دیں۔ جو اپ کو بتا سکے کہ اپ کی دی ہوئی پالیسی۔ واقعی ظلم و ناانصافی کی زنجیریں توڑ رہی ہےْ؟۔۔اپ کا نسخہ کیمیاء ۔۔غریب اور پسماندہ طبقات کے حقوق و مراعات کا تحفظ کر رہا ہے؟۔۔اور کیا انصاف کی اخری پناہ گاہ تک عام ادمی کی رسائی ہو رہی ہے؟

امام عدل: ہمارا کامل یقین تھا کہ۔۔اپ کی سلطنت انصاف سے ظلم و جبر۔ ناانصافی اور کرپشن بھی۔۔کسی مشرف کی طرح۔۔ کسی ڈوگر کی طرح۔۔منظر سے غائب ہو جائے گی۔۔اپ کے انصاف کی پنا ہ گاہ میں ائے ہوئے۔۔ کمزور اور بے بس انسان ۔۔محفو ظ رہیں گے۔۔فتح مشرف کے بعد۔۔ من پسند ججوں کی بحالی پر۔۔ا ہل وطن اپکی جنت انصاف میں۔۔ حوروں کے ہاتھوں۔۔ جام انصاف سے لذ ت اشنا ہونے کے منتظر۔۔ کھڑے کھڑے مایوسی کا شکار ہونے لگے ہیں۔۔اگر خوشامد اور خوف سے نکل کر اپ کو بتایا جائے کہ۔۔اپ کا انقلاب اصغر مظلوم و بے بس۔۔ کمزور اور عام ادمی کوانقلابی انصاف سے مستفید کرنے سے قاصر ہے۔۔قوم کا فریب خیال تھا کہ اپ کے انقلاب اصغر سے اپ کے ججز مضبوط ہوئے ہوں گے۔ انصاف کی فراہمی کے لیئے انقلابی ہوئے ہوں گے۔۔لیکن وئہ تو پی سی او ججز جیسی طاقت بھی نہ دکھا سکے۔ اپ کے نظام انصاف کوموبائیل کمپنیوں کے ایزی لوڈ کی طرح۔ ہرو قت، ہر جگہ اور ہر کسی کیلئے ہو نا چاہئے تھا۔۔اپ کا نظام انصاف اب بھی پٹواری کی رپورٹ۔ اور پولیس کی تفتیش پر کھڑا ہے۔ اپ کے منصف انہیں سے انصاف کشید کر رہے ہیں۔۔اپ کے مہنگے اور پیچیدہ نظام انصاف کو کوئی کیا کرے۔ جبکہ پولیس اسٹیشنوں میں۔۔ انصاف کے ATM نصب ہیں۔۔۔ادھر سے قائداعظم کارڈ ڈالو۔۔ ادھر سے انصاف حاصل کر لو۔۔اب بھی بے گناہ محفوظ نہیں۔ اب بھی مجرم سودا کرکے بے گناہ ہو رہے ہیں۔۔اب بھی مائیں اپنے بیٹوں کو انصاف دلانے کے لئیے۔ انصاف کی صفائو مروہ کے درمیان۔ دیوانگی سے دوڑ رہی ہیں۔ لیکن کوئی زمزم انصاف انہیں دیکھائی ہی نہیں دیتاَّ۔

امام عدل:مہنگا، مشکل اور پیچیدہ نظام انصاف بھی۔۔ناانصافی کے قریب تر ہوتا ہے۔۔ از خود نوٹس بھی ۔۔ ناانصافی اور ظلم کے ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔۔جہاں کرپشن کے کباڑیئے زنجیر عدل کو ہی تول کر لے جانے میں مہارت حاصل کر لیں۔۔جب ناانصافی کے بطن سے خود کش حملہ أور پیدا ہونے لگیں۔۔تو امن کی فصلیں ہمارہ مقدر کیسے ہو سکتی ہیں؟۔۔اب بھی بہت سارے لوگ۔ پولیس کے ظلم کو مقدر کا لکھا سمجھ کر۔۔انصاف کے حصول سے گریزاں ہیں۔ قانون جب غضب کا دیوتا بنتا ہے تو انصاف امن کی دیوی کی طرح پر سکون ہو جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں لوگ ظلم کو ہی انصاف مان کر۔۔ انصاف سے بے حس ہوتے جا رہے ہیں۔ انصاف کے حصول سے گریزاں ہونے کے عمل سے اگے۔۔ انصاف کی سول نافرمانی شروع ہو جاتی ہے۔

امام عدل: خط ناانصافی سے نیچے زندگی گزارنے والی اکثریت۔۔اب بھی اپ کے ساتھ ہے۔۔انصا ف کے جیالے اب بھی ہاتھوں میںاپنے سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ لا تعداد نواز شریف اور اعتزاز حسن۔ انقلاب اکبر کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیئے۔ اپ کی راہ دیکھ رہے ہیں۔۔شفاف،موثراور فوری انصاف کی فراہمی کے لیئے ۔۔ابھی قو م و ملک کواپ کی ضرورت ہے۔۔ لیکن شاید عہدے کی طا قت نے اپ کو اختیارات انجوائے کرنے کی طرف مائل کر دیا ہے۔ پر سکون زندگی گزارنے کی خواہش پیدا ہو گئی ہے۔۔ نہ جانے اپ نے انصاف کے انقلاب اکبر کا امام عدل بننے کی بجائے۔۔ مائی لارڈ کہلوانے پر ہی قناعت کیوں کر لی ہے؟

M.Farooq Khan

M.Farooq Khan

تحریر: محمد فاروق خان