تحریر : سید توقیر زیدی اخبارات میں وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کی ایک تصویر شائع ہوئی ہے جس میں وہ جے آئی ٹی کی تفتیشی ٹیم کے سامنے پیشی کے منتظر بیٹھے ہیں۔ پورے کمرے میں بظاہر ایک کرسی اور ایک چھوٹی سی میز ہے، کرسی پر حسین نواز بیٹھے ہوئے ہیں اور ساتھ والی میز پر انہوں نے اپنے کاغذات رکھے ہوئے ہیں جو وہ تفتیش کے سلسلے میں اپنے ساتھ لے کر گئے تھے۔ تصویر کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ وہ بیٹھے بیٹھے اکتا گئے ہیں وہ سر نہیوڑا کر بیٹھے ہوئے ہیں، غالباً کسی سوچ میں غلطاں بھی ہوں گے۔ یہ تصویر 28 مئی کو اس وقت کھینچی گئی تھی جب وہ پہلی مرتبہ جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوئے تھے۔ اس پیشی کی جو خبر اگلے روز اخبارات میں شائع ہوئی تھی اس میں بتایا گیا تھا کہ حسین نواز سے 2 گھنٹے تفتیش کی گئی بعد کی پیشیوں میں یہ عرصہ طویل تر ہوتا گیا۔ خبر کے ساتھ یہ اطلاع بھی شائع ہوئی تھی کہ ایک ایمبولینس بھی جوڈیشل اکیڈمی کے باہر دیکھی گئی جہاں تفتیش کا کام ہو رہا ہے، یہ ایمبولینس کس مقصد کیلئے بلائی گئی تھی اس بارے میں ہمارے پاس کوئی ٹھوس اطلاعات نہیں البتہ چینلوں سے اس بارے میں مختلف قسم کی ہوائیاں اڑائی گئیں جن کی بنیاد پر عمران خان نے یہ بیان جاری کیا تھا کہ تفتیش کے موقع پر حسین نواز کی حالت خراب تھی۔
چونکہ عمران خان کے پاس خفیہ اطلاعات ہوتی ہیں اس لئے ممکن ہے انہیں کسی نے اندر کی بات بتائی ہو لیکن یہ تصویر سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے ایک رہنما نے جاری کی ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے پاس یہ تصویر کیسے پہنچی؟ تصویر تو ان سی سی ٹی وی کیمروں سے لی گئی ہے جو اس تفتیشی مرکز میں لگائے گئے ہوں گے۔ ظاہر ہے ان کیمروں کی نگرانی بھی کوئی ذمہ دار عہدیدار کر رہا ہوگا۔ تصویر تک ہر کس و ناکس کی رسائی نہیں ہوسکتی، تو سوال یہ ہے کہ یہ تصویر کس نے اور کس مقصد کیلئے لیک کی، چونکہ اس میں صرف ایک ہی شخص کا نام آیا ہے جس کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اس سے بظاہر لگتا ہے کہ وہ اس تصویر کے ذریعے ثابت کرنا چاہتے ہوں گے کہ حسین نواز تفتیش سے پریشان ہیں اور پھر اس حوالے سے حاشیہ آرائیاں کی جاسکتی ہیں جو کی بھی جا رہی ہیں لیکن تفتیش کے بعد حسین نوازنے میڈیا کے سامنے جو بات کی اس میں تو وہ قطعاً پریشان نظر نہیں آتے البتہ یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایک خالی کمرے میں جہاں کوئی دوسرا نہ ہو، ایک کرسی پر وہ بیٹھا ہو اور ساتھ والی میز پر کاغذات پڑے ہوں ایسے ماحول میں آدمی یا تو دیواروں اور چھت کو تاکے گا، اِدھر اْدھر دیکھے گا اور چند منٹ میں جب یہ عمل مکمل کرلے گا تو اسی پوز میں بیٹھے گا جس میں حسین نواز بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ کوئی حیرانی یا تشویش کی بات بھی نہیں۔اب خالی کمرے میں حسین نواز کو اس طرح بیٹھے دیکھ کر اگر کسی کو یہ تسلی ہوتی ہے کہ اس پریشان حال نوجوان سے جو تفتیش ہوگی وہ لازماً کسی دوسرے کے سیاسی مقاصد پورے کردے گی تو یہ خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
حسین نواز کئی پیشیاں بھگت کر اب پراعتماد نظر آ رہے ہیں غالباً تصویر جاری کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس کی گئی تاکہ چینلوں پر جو بے پر کی اڑائی جا رہی ہیں انہیں سپورٹ کرنے کیلئے کچھ مواد تو موجود ہو۔ چونکہ یہ تصویر ایک سیاسی مخالف کے واسطے سے میڈیا پر آئی ہے اس لئے یہ تصور کرنا کچھ عجب نہیں کہ یہ تصویر اسی مقصد کیلئے جاری کی گئی ہوگی جس کا مطلوب یہ ہوگا۔ چونکہ حسین نواز پریشانی کے عالم میں بیٹھے ہیں اس لئے اس کا مفہوم یہی ہے کہ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ چونکہ جن لوگوں نے یہ ماحول بنا رکھا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد وزیراعظم کا بچنا محال ہوگا، انہیں ایسی ہی تصویرون کے سہارے کی ضرورت ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ تصویر اسی نے جاری کی ہے جس کا وہاں آنا جانا ہے اور سی سی ٹی وی کیمروں تک جس کی رسائی ہے اور آگے پھیلانے سے اس کا مقصد کسی کی انا کی تسکین بھی ہے جیسا کہ وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے بھی کہا کہ حسین نواز کی تصویر سامنے لانا جھوٹی انا کی تسکین ہے۔
وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ حسین نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی کی تصویر لیک ہونا غیر معمولی ہے جبکہ تصویر خودگواہ ہے کہ حسین نواز انصاف کے منتظر ہیں۔ مریم اورنگزیب کا وزیراعظم نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز کی جے آئی ٹی میں دوران پیشی تصویر لیک ہونے کے معاملے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حسین نواز کی تصویر کی اشاعت کا طریقہ کارہتک آمیز اور افسوسناک ہے جبکہ تصویر کا لیک ہونا تفتیش کے قانونی طریقہ کار کے بھی منافی ہے۔ ایک تسلسل سے غیر منصفانہ واقعات سے انتقام کی بو آتی ہے اور ان واقعات سے ملک میں شکوک و شبہات کی فضا جنم لے رہی ہے۔ وزیر مملکت نے مزید کہا کہ پانامہ کیس میں وزیراعظم اور ان کے خاندان نے خود کو احتساب کیلئے پیش کیا جو کہ نوازشریف اور ان کے خاندان کی جانب سے قائم کی جانے والی اعلیٰ اور تاریخی مثال ہے۔ اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے اور لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کیا تفتیشی افسران کسی بھی معاملے کی تفتیش سے پہلے ”صاحب تفتیش” کو نفسیاتی دباؤ میں رکھنے کیلئے ہر ایک کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔؟ کیا اس طرح وہ اپنی انا کی تسکین کر رہے ہیں یا کسی دوسرے کے جذبات کو آسودہ کرنے کیلئے یہ تصویر دکھانا چاہتے ہیں۔
حسین نواز کا کہنا ہے کہ وہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی ایسے ہی سوالات کا سامنا کرچکے ہیں۔ اس وقت کی کوئی تصویر تو ہم نے نہیں دیکھی لیکن عین ممکن ہے اس دور کے تفتیش کاروں نے بھی تفتیش سے ”مثبت نتائج” حاصل کرنے کیلئے ایسی ہی روایات پر عمل کیا ہو، اس تصویر کی اشاعت سے تفتیشی افسران کا طرزعمل بھی زیربحث آئے گا اور عین ممکن ہے اس حوالے سے قانون کی عدالتوں میں نئے سوالات بھی سامنے آئیں اور تفتیش کا پورا نظام ہی سوالیہ نشانات کی زد میں آ جائے۔ تصویر جس کسی نے بھی جس بھی مقصد کیلئے جاری کی ہو، اب تیر کمان سے نکل چکا، یہ اب کس کس کو زخمی کرے گا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تیرانداز کا ہدف جو بھی تھا ضروری نہیں یہ تصویر صرف اسی ہدف تک پہنچے یہ نشانے پر لگنے کی بجائے یمین ویسار کو بھی زد میں لے سکتی ہے۔؟اس تصویر سے اور کچھ ثابت ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو، یہ ضرور ثابت ہو جاتا ہے کہ حسین نواز نے جے آئی ٹی کے دو ارکان پر جو اعتراضات کئے تھے وہ بے وزن نہیں تھے اور اب ان میں نئی معنویت پیدا ہو گئی ہے۔