تحریر: نجیم شاہ سوشل میڈیا پر وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کی جے آئی ٹی کے سامنے پہلی پیشی کی ایک تصویر وائرل ہو چکی ہے۔ منظرعام پر آنے والی تصویر سی سی ٹی وی کیمرے سے لی گئی ہے جو 28مئی دن 11:37بجے کی ہے۔ تصویر میں حسین نواز کو ایک بند کمرے میں اکیلا اور پریشانی کی حالت میں بیٹھا دکھایا گیا ہے اور لگتا ہے کہ تحقیقات سے پہلے حسین نواز انتظار کر رہے ہیں جبکہ ان کے ساتھ ایک ٹیبل پڑا ہوا ہے جس پر انہوں نے اپنی فائلز اور ایک پینسل رکھی ہوئی ہے۔ پیشی سے قبل حسین نواز کو اڑھائی گھنٹے تک انتظار کروایا گیا اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ تصویر حسین نواز کے انتظار کے دوران بنائی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس تصویر کو حق اور سچ کی جیت اور کرپشن کی ہار کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔عام طور پر جے آئی ٹی کی کارروائی کو خفیہ رکھا جاتا ہے اور اس طرح کی تصاویر جاری کرنے سے پرہیز کیا جاتا ہے تاہم حسین نواز کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے وقت لی گئی تصویر لیک ہونے سے جے آئی ٹی کے بارے میں مزید سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ یہ تصویر لیک ہو کر سوشل میڈیا تک کیسے پہنچی اس کے بارے میں متضاد رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ مذکورہ تصویر تحریک انصاف کے علی زیدی نے سوشل میڈیا پر بریک کی۔ دوسری رائے یہ ہے کہ مذکورہ تصویر ایڈیٹ کی گئی ہے جبکہ تیسری رائے یہ ہے کہ یہ حکومتی ایوانوں سے جاری کردہ تصویر ہے جس کا مقصد صرف اور صرف ہمدردیاں سمیٹنا ہے۔
پہلی رائے کی روشنی میں دیکھا جائے سوال یہ اُٹھتا ہے کہ یہ تصویر علی زیدی تک کیسے پہنچی؟ اگر واقعی اس تصویر کے وائرل کرنے میں تحریک انصاف کا ہاتھ ہے تو پھر یہ عدلیہ اور جے آئی ٹی کی غیر جانبداری پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے اور اُن کا مؤقف ہے کہ حکومتی ایجنسیاں وقتاً فوقتاً یہ کوشش کر رہی ہیں کہ جے آئی ٹی کی ساکھ متاثر کی جا سکے، جے آئی ٹی کی کارروائی کی تصویریں لیک کرنا بھی اسی کی ایک کڑی ہے جس کا جواب صرف شفافیت ہے۔ دوسری رائے کی حقیقت جاننے کیلئے پیشیوں کے میڈیا کلپس کھنگالنا ہوں گے کہ آیا موصوف نے اس رنگ کے کپڑے پہنے کہ نہیں۔ اگر یہ ایڈیٹ کی گئی تصویر ہے تو پھر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آیا اس کو وائرل کرنے میں کس کا مفاد پہننا ہے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں لگتا کہ یہ تصویر ایڈیٹ شدہ ہو۔
تصویر سی سی ٹی وی کیمرے کی ہونا گواہی دیتی ہے۔ تیسری اور آخری رائے جو سب سے زیادہ سوشل میڈیا پر ڈسکس کی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ تصویر دانستہ وائرل کی گئی ہے اور تمام ملی بھگت مریم نواز کے میڈیا سیل سے ہو رہی ہے، جس کا مقصد حسین نواز کو مظلوم، عدلیہ کو متنازعہ اور جے آئی ٹی کو نواز دشمن ثابت کرنا ہے۔ یہ رائے رکھنے والوں کے مطابق اب ن لیگ اس کو کیش بھی کروائے گی اور اس تصویر کا تحریک انصاف کے پاس ہونے کا ڈھنڈورا بھی پیٹے گی اور یہ تاثر قائم کرے گی کہ ہمارے ساتھ واقعی زیادتی ہو رہی ہے اور پھر اس کی بنیاد پر جے آئی ٹی کو متنازعہ بنا کر اس کے تمام فیصلوں کو ماننے سے انکار کیا جائے گا۔
یہ بات قرین قیاس لگتی ہے کہ مذکورہ تصویر دانستہ پبلک کی گئی ہے ، لیکن یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ آیا اس طرح کا انتہائی کانفیڈینشنل ریکارڈ کا لیک ہو جانا کیا جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانے کی کوشش تو نہیں؟ یہ ریکارڈنگ یا تصویر جس نے بھی پبلک کی ہے کیا سپریم کورٹ کو اس کے خلاف ایکشن نہیں لینا چاہئے؟ کیونکہ قانون سب کے لئے برابر ہے، چاہے ملک کا وزیراعظم کرپشن میں مبتلا ہو اور چاہے وہ وزیراعظم کی کرپشن کے خلاف تحقیقات کرنے والوں کی ٹیم کا حصہ ہو اور چاہے وہ سپریم کورٹ یا جے آئی ٹی کا کوئی ممبر ہو یا ان دونوں کا کوئی ملازم، قانون شکنی کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ایسی تصاویر لیک ہونا ہمارے سسٹم کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔یہ تصویر جے آئی ٹی کی مرضی کے بغیر میڈیا کو جاری نہیں ہو سکتی تھی۔ اس تصویر کو جاری کرنے کا مقصد کیا تھا؟ کیا مقصد حسین نواز کی توہین کرنا تھا یا پھر جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانا مقصود تھا۔ سپریم کورٹ کواس پر سوموٹو ایکشن لینا ہو گا ورنہ یہ اپنے ہی گھر پر خودکش حملہ کے مترادف ہو گا۔