حیدر پورہ اور سونہ وار میں پابندیاں، متعدد لیڈران نظر بند، درجنوں افراد حراست میں لے لیے گئے

سرینگر : اقوام متحدہ دفتر چلو کال پر پولیس نے سیدعلی گیلانی کو گرفتار کرلیا، متعدد رہنما نظر بند کردیئے گئے۔ یو این اوچلو کوناکام بناتے ہوئے پولیس نے حیدر پورہ اور سونہ وار علاقوں میںپابندیاں لگا کرسید علی گیلانی کو اس وقت حراست میں لیا جب انہوں نے اپنی رہائش گاہ سے باہر آکر جلوس نکالنے کی کوشش کی جبکہ متعددعلیحدگی پسند لیڈران کو گھروں میں نظر بند رکھا گیااور کئی لیڈران کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔

شوپیان میں ہوئی حالیہ ہلاکتوں کے خلاف احتجاج درج کرانے کیلئے حریت (گ)کے چیر مین سید علی شاہ گیلانی نے لوگوں سے سونہ وار میں قائم اقوام متحدہ کے دفتر کی طرف مار چ کرنے اپیل کی تھی تاکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نام یاداشت روانہ کی جائے ۔ادھرکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن نے سید علی گیلانی کی کال کی حمایت میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف احتجاج کے بطور عدالتوں کا بائیکاٹ کرنے کی کال دی تھی جس پر ہائی کورٹ اور دیگر ذیلی عدالتوں کا کام کاج مکمل طور ٹھپ ہو کررہ گیا۔

انتظامیہ نے اس مارچ کو نکالنے کی اجازت نہیں دی اور امن و قانون کی صورتحال کو برقرار رکھنے کیلئے منگل اور بدھ کی درمیانی شب سے ہی حیدر پورہ اور ملحقہ علاقوں میںامتناعی احکامات نافذ کئے جن کو نافذ العمل بنانے کے لئے پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بڑی تعداد تعینات کی گئی تھی۔ بدھ کی صبح ائر پورٹ روڑ پر حفاظت کے انتہائی سخت انتظامات کے بیچ حیدر پورہ اور نزدیکی علاقوں میں جگہ جگہ ناکے بٹھائے گئے تھے جہاں گاڑیوں کو روک کر ان کی تلاشی لی جارہی تھی۔ گیلانی کی رہائش گاہ کے باہر بھی پولیس اور فورسز کی بھاری جمعیت موجود تھی اور کچھ ایک جگہوں پر لوگوں اور گاڑیوں کی آمدورفت محدود کردی گئی تھی۔

حریت دفتر کی طرف جانے والے راستوں کو خاردار تار کے ذریعے سیل کردیا گیا تھا اور وہاں کی طرف کسی کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔علاقہ میں سخت ترین پابندیوں کے باوجود حریت کارکنان سمیت لوگوں کی بڑی تعداد چھوٹے چھوٹے گروپوں کی شکل میں سڑکوں پر نمودار ہوئے اور اسلام و آزادی کے حق میں نعرے بازی شروع کی۔پولیس نے مظاہرین کو روکنے کی کوشش کی جس پر انہوں نے پولیس اور فورسز پر پتھرائو کیا۔ پولیس نے جوابی پتھرائو کیا اور لاٹھی چارج کرنے کے بعد ٹیر گیس کے گولے داغے۔طرفین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ قریب ایک گھنٹے تک جاری رہا اور اس دوران پولیس کارروائی کے نتیجے میں اتھل پتھل مچ گئی اورسینئر حریت امتیاز حیدر سمیت کئی افراد کو چوٹیں آئیںجبکہ ائر پورٹ روڑ پر کچھ دیر کیلئے گاڑیوں کی آمدورفت بھی معطل ہوکر رہ گئی۔

بعد میں صورتحال پر قابو پاکر ٹریفک کی روانی بحال کردی گئی اور علاقہ میں دن بھر پولیس اور فورسز اہلکار گشت کرتے رہے۔ اس سے قبل گیلانی نے بھی یو این چلو کال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنی رہائش گاہ سے باہر آنے کی کوشش کی لیکن ان کے گھر کے باہر موجود پولیس کی بھاری جمعیت نے انہیں روک لیااور حراست میں لے کر پولیس تھانہ ہمہامہ پہنچایا۔ ادھر سونہ وار علاقہ میں یو این آفس کے گردونواح میں امن و قانون کو برقرار رکھنے کیلئے حفاظت کے غیر معمولی انتظامات کئے گئے تھے۔پولیس نے ڈلگیٹ سے سونہ وار تک روڈ پرخار دار تار اور رکاوٹیں کھڑا کیں تھیں اور ٹرانسپورٹ کو رام منشی باغ تھانے کے روڈ سے جانے کی اجازت دی گئی ۔شام دیر گئے نواب بازار میں پولیس اور مشتعل نوجوانوں کے مابین جھڑپیں ہوئیں۔

دریں اثنا سرینگر اور وادی کے دیگر قصبہ جات میں کاروباری اور ٹرانسپورٹ سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رہیں۔حریت کے مجوزہ مارچ کو ناکام بنانے کے لئے متعدد حریت لیڈران کو نظر بند رکھا گیا جبکہ کئی لیڈران کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔ادھرمنگل کی شام سے ہی پولیس نے جے کے ایل ایف لیڈر محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خان، محمد اشرف صحرائی، ظفر اکبر بٹ، جاوید احمد میر،غلام محمد گنائی اور دیگر کئی حریت لیڈروں کو خانہ نظر بند کیا۔ پولیس نے حریت (گ) کے ضلع صدر پلوامہ غلام محی الدین انداربی اور تحصیل صدر ترال فیاض احمد ڈار کے علاوہ غلام نبی میر کو گرفتار کرکے پولیس تھانہ ترال پہنچایا۔ ادھر پولیس نے ماس مومنٹ کے کارکن عبدالرشید کو گرفتار کرکے نگین تھانے میں بند کیا۔

ڈی پی ایم چیرمین فردوس احمد شاہ، محمد عبداللہ شیخ، شیخ غلام محمد کنگن اور دوسرے درجنوں کارکنوں کو حراست میں لیکر تھانوں میں لے جایا گیا۔ حریت ترجمان کے علاوہ غلام نبی سمجھی، محمد شفیع ریشی، الطاف احمد شاہ، پیر سیف اللہ، عبدالاحد پرہ، راجہ معراج الدین، حکیم شوکت کے گھروں پر چھاپے ڈالے گئے تاہم وہ اپنے گھروں میں موجود نہیں تھے۔دریں اثنا کشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن نے سید علی گیلانی کی کال کی حمایت میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف احتجاج کے بطور عدالتوں کا بائیکاٹ کرنے کی کال دی تھی جس پر ہائی کورٹ اور دیگر ذیلی عدالتوں کا کام کاج مکمل طور ٹھپ ہو کررہ گیا۔

احتجاجی کال کے تحت وکلا نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا اور کسی بھی کیس کی پیروی نہیں کی جس کے باعث عدالتوں کے اندر الو بولتے رہے۔وادی کے دیگر اضلاع میں بھی وکلا کی طرف سے عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کرکے احتجاج درج کیا گیا۔اسی دوران وکلا کی ایک بڑی تعداد سرینگر کے صدر کورٹ کمپلیکس میں جمع ہوئی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے کمپلیکس سے باہر آنے کی کوشش کی۔تاہم کمپلیکس کے باہر پہلے سے ہی پولیس کی بھاری جمعیت موجود تھی اور انہوں نے کورٹ کا صدر دروازہ بند کرکے وکلا کی باہر آنے کی کوشش ناکام بنادی۔اس موقعہ پر احتجاجی وکلا نے زبردست مزاحمت کی لیکن انہیں کمپلیکس کے اندر ہی محصور کردیا گیا۔

بعد میں انہوں نے کمپلیکس کے اندر ہی کچھ دیر تک نعرے بازی کرتے ہوئے احتجاج درج کیا۔ تاہم کچھ وکلا پریس انکلیو تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور انہوں نے دھرنا دیکر نعرے بازی کی جس کے فورا بعد پولیس نے ان کے خلاف کارروائی عمل میں لاتے ہوئے کئی وکلا کو گرفتار کرلیا۔