تحریر: سالار سلیمان حیدر آباد پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے اور اس کا شمار ملک کے اہم ترین شہروں میں ہوتا ہے ۔ یہاں کی اجرک’ قیمتی زیورات’ بریانی بنانے کا طریقہ’خوبصورت کنگنوں سمیت دیگر چیزیں بھی مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ اس شہر میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار بھی ترقی کی جانب گامزن تھا۔ تاہم اب ملک بھر میں رئیل اسٹیٹ کی صورتحال غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے اور اسی وجہ سے اس شہر میں بھی رئیل اسٹیٹ کا کاروبار تنزلی کا شکا رہے۔
حیدر آباد سے کراچی کا فاصلہ تقریباً 165کلو میٹر ہے یعنی تقریباًپونے تین گھنٹے کی مسافت ہے ۔کراچی کی صورتحال کا اثر بہر صورت اس شہر پر ہوتا ہے ۔ کراچی میں اب سیاسی اور سکیورٹی صورتحال کافی بہتر ہو چکی ہے ۔ایک عالمی ادارے رائیٹر ز کی رپورٹ کے مطابق 2015ء میں 2013ء کی نسبت 75فیصد کم قتل کے واقعات رپور ٹ ہوئے ہیں۔ اسی طرح سے بھتہ وصولی کی شکایات میں 80فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور اغواء کے واقعات 90فیصد کم ہوئے ہیں۔ کراچی میں صورتحال کی بہتری سے اس شہر کے حوالے سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے اور شہر میں سرمایہ کاری کی صورتحال سازگار ہوئی ہے جس کا اس شہر کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ پر مثبت اثر ہوا تھا۔ حیدر آباد اور اندرون سندھ کے سرمایہ کاروں نے بھی کراچی میں سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی تھی جبکہ سرمایہ کاری کے حوالے سے بحریہ ٹاؤن کراچی مقبول ترین جگہ تھی۔
ماضی میں صورتحال ایسی تھی کہ کراچی کا سرمایہ کار کراچی میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے 165کلومیٹر دور حیدر آباد کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں دلچسپی کا اظہار کرتا تھا۔ اس وقت حیدر آباد کی مارکیٹ میں کافی سرمایہ کراچی کے سرمایہ داروں نے لگایا ہوا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب کراچی سیاسی عدم استحکام اور سکیورٹی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے سرمایہ کار خود کو غیر محفوظ تصور کرتے تھے ۔ اب جبکہ ساحلی شہر کی صورتحال میں بہتری پیدا ہوئی ہے تو سرمایہ کاری کا منظر نامہ بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ حیدر آباد تک آسان رسائی کیلئے حکومت کی جانب سے یہاں پر موٹروے بنائی جا رہی ہے ۔ اس حوالے سے ایک نجی پراپرٹی ڈیلر نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موٹروے بننے کے بعد حیدر آباد کی مارکیٹ دبنے کا امکا ن ہے ۔ اس کے علاوہ بھی اب حیدر آباد میں سرمایہ کاری میں کمی ہو رہی ہے اور سرمایہ دار اپنا سرمایہ کراچی منتقل کر رہے ہیں۔
Hyderabad Real Estate Market
ایسی بات نہیں ہے کہ حیدرآباد کوئی پسماندہ علاقہ ہے ۔ یہاں پر پختہ سڑکیں ہیں’ ہسپتال ‘ ہوائی اڈہ ‘ پبلک ٹرانسپورٹ’ خوبصورت پارک اور جم خانہ کلب جیسی سہولیات موجود ہیں۔ اس لحاظ سے اس شہر میں سرمایہ کاری کا اچھا دائرہ کار بھی موجود ہے کیونکہ خالی زمین توکسی کام بھی نہیں ہے۔اگر یہاں پر مختلف پراجیکٹس شروع کئے جائیں تو یقینا ان منصوبوں سے کاروباری مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ حیدر آباد میں اس وقت ڈاؤن ٹاؤن ریزیڈنسی’ عطارڈیپلکس ریزیڈنسی’ گرین سٹی سمیت متعدد منصوبے ہیں لیکن خرید و فروخت میں کمی کے باعث یہاں کی مارکیٹ اس وقت جمود کا شکا رہے۔
رہی سہی کسر نئے لگنے والے ٹیکسوں نے پوری کر دی ہے ۔ان نئے ٹیکسوں کے نفاذ نے جہاں پورے پاکستان کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ پر اچھے خاصے اثرات چھوڑے ہیں ‘ وہیں پر ان ٹیکسوں کے نفاذ کا اثر حیدر آباد پر بھی پڑا ہے ۔ٹیکس کے حوالے سے جب حیدر آباد کے ایک رئیل اسٹیٹ ایجنٹ سے رابطہ کیا گیا تو اُس نے کہا کہ ہم ایک مہینے میں تقریباً 8سے 10ڈیلز کر رہے تھے لیکن ٹیکس کے نفاذ کے بعد ہم ایک ماہ میں صرف دو سے تین ڈیلز کر رہے ہیں۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو حیدر آباد میں کاروبار کی شرح میں ملک بھر کے دیگر شہروں کی طرح سے تقریباً 90فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے ۔ حیدر آباد کا رئیل اسٹیٹ کا شعبہ گزشتہ کچھ سالوں میں سست روی کا مظاہرہ کر رہا تھا جبکہ اب نئے ٹیکسوں کے نفاذ نے اس شعبے کیلئے مزید مشکلات کا اضافہ کر دیا ہے اور کاروبار میں شدید مندی کا رحجان دیکھا جا رہا ہے ۔اگر یہی صورتحال جاری رہتی ہے تو شاید حیدر آباد کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے۔