تحریر: ناصرہ خان منافقت ایک رویئے کا نام ہے اور اس رویہ کو بنی نوع انسان کے ہر دور میں انتہائی نفرت انگیز سمجھا گیا اور اب بھی سمجھا جارہا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ بھی منافقت سے نفرت کرتے ہیں جو خود نفاق یا منافقت میں مبتلا ہوتے ہیں ، منافقت معاشرے کے لئے زہر قاتل ہے ، کوئی انسان اچھا ہو تو اس کو اچھا کہا جاتا ہے کوئی برا ہو تو اسے برا ،لیکن دنیا میں ایسے انسانوں کی کمی نہیں جن کے رویے کا رجحان برائی کی طرف تو ہوتا ہی ہے ۔
لیکن وہ اس کا اظہار نہیں کرتے اور بظاہر دوسرا انسان ایسا محسوس کرتا ہے کہ مقابل فرد اچھے رویے کا حامل ہے یا اس میں برائیاں نہیں ہیں لیکن دراصل وہ برائیوں سے لتھڑا ہوتا ہے اور ایسا شخص معاشرے کے لئے زہر کی حیثیت رکھتا ہے یعنی ”بغل میں چھری منہ میں رام رام ”۔ ایسا شخص پیٹھ پیچھے وار کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا بہرحال یہ تو میں اپنے تجربات آپ کے ساتھ شیئر کر رہی تھی لیکن دراصل منافقت ہوتی کیا ہے ؟ اس حوالے سے دین اسلام کیا کہتا ہے اس پر مختلف کتابوں اور علماء کرام سے استفادہ کر کے اس بحث کو آپ کے سامنے لا رہی ہوں۔
علماء کرام نے منافقت کو مسلمانوں کے ایمان کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔کسی بھی شخص کے دین کے لیے سب سے بڑا خطرہ نفاق ہے۔ بعض اوقات لوگ منافقت کے شکار ہوتے ہیں اور انہیں پتہ ہی نہیں چلتا، بندہ نماز پڑھتاہے، روزہ رکھتاہے اور حج پر بھی جاتاہے لیکن ممکن ہے نفاق میں مبتلا ہوجائے۔ نفاق کی دو قسمیں ہیں، ایک کا تعلق عقیدے سے ہے اور دوسری نوع عملی منافقت ہے۔ اگر کوئی شخص ایمان کا دعویٰ کرے لیکن دل میں اللہ اور اس کے رسول برحق کو نہ مانے، وہ اعتقادی نفاق میں مبتلا ہے۔ یہ گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رہتے تھے۔
Worship
بظاہر تمام عبادات اور کاموں میں مسلمانوں کے ساتھ تھے، لیکن قلباً اپنے سابقہ مذہب پر تھے۔ ایک عالم دین کے مطابق آج کے اکثر مسلم حکمران جو خود کو مسلمان سمجھتے ہیں، جھوٹے لوگ ہیں۔ یہ لوگ منافق ہیں جو دین کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام دشمن عناصر کے ساتھ قلبی مودت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ دوستی نبھاتے ہوئے مسلم قوموں کو لادینیت کی جانب دکھیلتے ہیں۔انہوں نے عملی منافقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: عملی نفاق کا مطلب ہے بندہ عبادات پر عمل کرتاہے اور اسلام و شریعت پر عقیدہ بھی رکھتا ہے، لیکن اس کے باوجود نفاق کی نشانیاں ا س میں پائی جاتی ہیں۔
حدیث شریف میں آیا ہے جب کسی شخص میں تین صفات پائی جائیں تو وہ منافقوں میں شمار ہوگا۔جھوٹ اور دروغ گوئی کو منافقین کی نشانی یاد کرتے ہوئے عالم دین کا کہنا تھا کہ منافق لوگوں کی خصلت یہ ہے کہ کثرت سے جھوٹ بولتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے ہمارے معاشرے میں مختلف طریقوں اور بہانوں سے جھوٹ بولی جاتی ہے۔ بعض لوگ دوسروں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔ فرقوں اور مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے کے خلاف دروغ گوئی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ حالانکہ جھوٹے لوگوں پر اللہ کی لعنت ہے۔ اسلامی تعلیمات نے سختی سے جھوٹ بولنے سے منع کیاہے اور سچی بات کہنے پر زور دیاہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج کے مسلم گھرانوں میں بھی جھوٹ بولا جاتا ہے، حتیٰ کہ چھوٹے بچے جھوٹ بولتے ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ والدین خود جھوٹ بولتے ہیں اور بچے ان ہی سے سیکھتے ہیں۔عہدشکنی یا وعدہ خلاف بھی منافقوں کی دیگر صفات میں شمار ہوتی ہے ، منافق کی ایک نشانی وعدہ خلافی و عہدشکنی ہے۔ منافق لوگ اپنے وعدوں پر نہیں ٹھہرتے اور یہی بیماری ہمارے معاشروں میں پائی جاتی ہے۔ حالانکہ ماضی میں وعدہ خلافی لوگوں کی روایات اور کلچر کے سراسر خلاف سمجھی جاتی تھی۔ اسلام نے وعدہ پورا کرنے پر بہت زور دیاہے، حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ” جو وعدہ خلافی کرتاہے اس کا کوئی دین نہیں ہے۔”امانت میں خیانت منافقوں کی دیگر خاصیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دین کو ایک آسمانی امانت یاد فرمائی ہے۔ لہٰذا دینی احکام پر عمل نہ کرنا دین میں خیانت ہے اور شخص کے دین کو نقصان پہنچاتاہے۔ حدیث نبوی کا مفہوم ہے کہ جو امانتداری نہیں کرتا اس کا کوئی ایمان نہیں ہے۔
Islam
اسلام کی تاریخ پر اگر ایک نظر دوڑائی جائے تو جتنا نقصان نفاق نے امت مسلمہ کو پہنچایا اتنا واضح دشمنوں نے بھی نہیں پہنچایا، مدینہ منورہ میں جب رسول اللہۖ ہجرت کرکے آئے تو مکہ مکرمہ کی نسبت مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی طاقت میں آئے روز اضافہ ہوتا گیا ایسی صورتحال میں منافقوں کی ایک جماعت مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہی جن کا سرغنہ عبداللہ بن ابی تھا اس نے رسول اللہ ۖ کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی ۔ منافقین کے گروہ نے اپنی ایک مسجد بھی بنا رکھی تھی جس کو مسجد ضرار کہا جاتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اس مسجد کو گرانے کا حکم دیا ۔ نبی کریمۖ کو اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں وحی کے ذریعے بتایا اس لئے آپ ان منافقین سے بچ کے رہتے۔
یہ منافقین آپ ۖ اور مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کا زہریلا پروپیگنڈہ کرتے رہتے ۔ جنگ بدر، جنگ احد میں منافقین جہاد میں جانے کی بجائے مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہے اور لوگوں میں یہ پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ صحابہ کرام تو تھوڑے ہیں اور کفار مکہ ان کو شکست دیدیں گے اس لئے جنگ میں شامل ہوکر اپنے تعلقات خراب نہ کرو ا ن منافقین کی دلی خواہش تھی کہ مسلمانوں کو شکست ہو لیکن اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فاتح بناتا رہا حتیٰ کہ جنگ خیبر میں مسلمانوں نے یہودیوں کو ان کی بار بار کی عہد شکنی کے بعد شکست سے دوچار کیا۔
اس طرح یہودی جو شروع دن سے مسلمانوں کے دشمن اور منافقت عروج پر دل میں رکھتے تھے انہیں شکست ہوئی ۔ یہودی فتح خیبر کے اپنے کرتوتوں کے باعث علاقہ بدر ہوئے مگر دلوں میں مسلمانوں کے خلاف منافقت لیتے ہوئے گئے اور اس کے بعد انہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا ، یہودی چونکہ کمزور ہوچکے تھے اس لئے وہ سازشوں کے ذریعے مسلمانوں کو باہم لڑاتے رہے نبی کریمۖ کی وفات کے بعد یہودیوں نے منافقت کے ریکارڈ قائم کئے