اقتدار کانشہ اورگرمیوں میں ٹھنڈی ہوامیں نیند کا مزہ لیناہر انسان کے مقدر میں کہاں لکھا ہوتا ہے۔گزشتہ روز صوبہ پنجاب کے شہرلاہور میں ہونے والے واقعہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر کے لوگ میڈیا کے ذریعہ لمحہ بہ لمحہ باخبر رہے لیکن جناب قائم مقام آئی جی پنجاب کو سانحہ بادامی باغ سے لاعلم رکھا گیا۔اس بات انکشاف گزشتہ قائم مقام آئی جی پنجاب نے عدالت عالیہ میں کیا۔عدالت میں ہونے والے سوالات اورجواب جو میڈیا کے ذریعے پاکستان سمیت پوری دنیا کو معلوم ہوا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ توہین رسالت کے ذمہ دار کو سزا ملنی چاہیے پوری برادری کو نہیں ہرافسرمعاملہ چھپانے کے چکرمیں لگا ہے، نبی صلی عیلہ اللہ وآلہ وسلمکی حرمت پرسمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا، کارروائی کیلئے قانون موجود ہے کچھ لوگ خود کو بالاترسمجھتے ہیں سب پتہ چل جائیگاکہ جوزف کالونی والے پلاٹ میں کس کی دلچسپی ہے۔ پیر کو جوزف کالونی کے از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کی۔سماعت شروع ہوئی تو صوبہ پنجاب کے قائم مقام آئی جی پولیس خان بیگ نے جوزف کالونی واقعہ کے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی۔
جسے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں نہ تو حقائق ہیں اور نہ ذمہ دار افراد کا تعین کیا گیا ہے۔ آئی جی نے اپنے رپورٹ میں کہا کہ انہوں نے بندوں کو پکڑا ہے جس کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے دفعات کے تحت عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے قائمقام آئی جی کو کہا کہ آپ کو اس واقعہ کے ہونے کے متعلق دو دن پہلے اطلاع دی گئی تھی۔آئی جی پنجاب نے بتایا کہ یہ واقعہ کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے قائمقام آئی جی پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ایک لاہور شہر کو نہیں سنبھال سکتے تو پورے صوبے کو کیسے سنبھالیں گے۔قائمقام آئی جی پنجاب خان بیگ نے کہاکہ انہیں اس واقعے سے لاعلم رکھا گیایہ کام ایس ایچ او کا ہے ۔چیف جسٹس نے کہاکہ آئی جی اس واقعہ سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔عدالت میں آکر غلط بیانی سے کام نہ لیں ہر پولیس افسر اپنے آپ کو بچانے میں لگا ہے۔انہوں نے کہاکہ کیس میں ابتک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جہاں سے چلے تھے اب بھی وہیں کھڑے ہیں۔معاملے کی اصل جڑ سامنے نہیں لاسکے اگر ہم سیشن جج کو انکوائری کا کہیں تو کل ہی ذمہ دار اور حقائق سامنے آ جائیں گے۔
Justice Sheikh Azmat Saeed
انہوں نے کہا کہ آپ کا کام ائیرکنڈیشن کمرے میں بیٹھنا نہیں ان کی ذمہ داری تھی معاملے کو خود دیکھتے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اگر پولیس چاہتی تو راستوں کی ناکہ بندی کرکے اس حادثے کو روک سکتی تھی۔ایڈوو کیٹ جنرل اشتر اوصاف نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے پنجاب میں ابھی تک آئی جی کی تعیناتی نہیں کیا۔ایس پی انوسٹی گیشن نے عدالت کو بتایا کہ سانحہ بادامی باغ میں توہین رسالت ہوئی ہے۔
ملزم ساون مسیح کے خلاف ایف ائی آر درست ہے۔عدالت نے کہا کہ توہین رسالت کے ذمہ دار کو سزا ملنی چاہیے پوری برادری کو سزا نہیں دینی چاہیے۔چیف جسٹس نے کہاکہ رمشا مسیح کیس اور اس واقعے سے دنیا بھر میں ہماری بدنامی ہوئی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ جمعے یا ہفتے تک تحقیقات مکمل کرلیں گے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ متاثرین اب بھی خیموں میں ہیں اورہم سماعت کرکے چلے جاتے ہیں، ہرافسرمعاملہ چھپانے کے چکرمیں لگا ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم کی حرمت پرسمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔
کارروائی کے لئے قانون موجود ہے لیکن کچھ لوگ خود کو بالاترسمجھتے ہیں ۔چیف جسٹس نے کہاکہ صرف فیس سیونگ کیلئے جوڈیشل انکوائری کرائی جاتی ہے،گوجرہ واقعہ پرجوڈیشل کمیشن نے جس افسر کیخلاف سفارش کی وہ اپنی جگہ تعینات رہا،جب سفارشات پر عمل کرنا ہی نہیں تو اپنے انکوائری افسران کیوں فراہم کریں ،جوڈیشل کمیشن سفارشات پرعمل نہ ہونے سے جوڈیشل افسرکوشرمندگی کا سامناہوتاہے۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ جوزف کالونی کی طرف صرف دوراستے جاتے تھے، پولیس نفری بڑھادی جاتی توکوئی اندرنہیں جاسکتا تھا۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ جوزف کالونی واقعے پر پولیس سمیت کوئی بھی اصل وجہ جاننے کی کوشش نہیں کر رہاہے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ علاقہ خالی کراکے کسی کودینے کے کوئی شواہد یا ثبوت نہیں ملے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سب پتہ چل جائیگاکہ جوزف کالونی والے پلاٹ میں کس کی دلچسپی ہے۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے جوزف کالونی کے حوالے سے قائم مقام آئی جی پنجاب کی رپورٹ مستردکرتے ہوئے سی سی پی او لاہور کو خود تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔
افسوس کی بات یہ کہ ہر روز ایسے کئی واقعات رونماہوتے ہیں جو صحافیوں اپنے جان کی بازی لگاکر اعلیٰ احکامات تک لے کر جاتے ہیں۔لیکن اقتدارکانشہ اورگرمیوں ٹھنڈی ہوامیں نیند کا مزہ لینا والے کیس خارج کردیتے ہیں۔چھوٹے چھوٹے ہزاروں مقدمات ایسے ہیں جوپولیس کی غفلت سے بڑھے سانحہ میں تبدیلی ہوئے۔سانحہ بادامی باغ پر عدلیہ کااز خود نوٹس احسن اقدام ہے۔ لاکھوں لوگوں کو امید ہے کہ اب ایساکوئی واقعات رونمانہیں ہوگا۔