معروف شاعر اور افسانہ نگار ان انشاء کو ہم سے بچھڑے 41 برس بیت چکے ہیں۔ نگری نگری پھرنے والے مسافر کی یادیں ہمیشہ خوشبو بن کر مہکتی رہیں گی ان کی برسی کے موقع پر حلقہ فکروفن سعودی عرب کے صدر ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری نے انکی ادبی خدمات کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ابن انشاء ایک منفرد شاعر تھے ان کی شاعری اور افسانے آج بھی سننے والوں کو محسور کر دیتے ہیں۔
ادبی حلقوں میں ان کا خاص مقام تھا -انہوں نے اپنی شاعری میں ہندی اور اردو الفاظ کے امتزاج سے جو کہکشاں تشکیل دی’ اسے بھی قبول عام نصیب ہوا۔ زبان کی سلاست اور سادگی ، بے ساختگی، برجستگی اور والہانہ پن انہیں دیگر مزاح نگاروں سے منفرد و ممتاز کرتا ہے۔ان کی شاعری میں رنگ میر کے ساتھ ساتھ شگفتگی ، نغمگی اور موسیقیت کا عنصر نمایاں ہے۔
ان کی نثری اور شعری تخلیقات آج بھی قارئین ادب کے دلوں میں گھر کئے ہوئے ہیں۔ ابن انشاء،سفرنگاری، طنزومزاح، شاعری اور کالم نگاری کا ایک معتبر حوالہ ہیں، اس بستی کے اس کوچے میں، چاند نگر’ دل وحشی’ آوارہ گرد کی ڈائری’ دنیا گول ہے’ ابن بطوطہ کے تعاقب میں’ چلتے ہوتو چین کو چلیے’ نگری نگری پھرا مسافر’ خمار گندم اور’ اردو کی آخری کتاب جیسی بے مثال کتابیں یاد گار چھوڑیں۔
ابن انشاء27 جون 1927ء کو بھارت کے صوبہ پنجاب میں پیدا ہوئے، ان کا اصل نام شیر محمد خاں تھا، ابن انشاء کی پہچان مزاح نگار اور سفر نامہ نگارکی حیثیت سے ہے لیکن وہ ایک منفرد شاعر بھی تھے وہ پاکستان کے متعدد اخبارات میں کالم نگاری بھی کیا کرتے تھے جب کہ انھوں نے ریڈیو پاکستان اور وزارت ثقافت میں بھی کام کیا۔
ابن انشاء نے یونیسکو کے مشیر کی حیثیت سے متعدد ممالک کا دورہ کیا، انھوں نے متعدد سفر نامے بھی تحریر کیے جو عوام میں بے پناہ مقبول ہوئے۔ اردو ادب کے یہ گراں قدر سرمایہ 11 جنوری 1978ء کو علالت کے باعث لندن میں انتقال کر کیا اور انھیں کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔