اصغر شاد (مرحوم) چار دہائیوں سے پیشہ صحافت سے منسلک رہے۔۔۔ان کا کالم گزشتہ 25 سال سے تسلسل کے ساتھ روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوتا رہا۔ ۔لاتعداد ملکی اور غیر ملکی سیاسی ،مذہبی اور سفارتی شخصیات کے انٹرویو ز کئیے،، ناروے ،ڈنمارک ،سویڈن ،جرمنی، ہالینڈ ،بلیجم ،برطانیہ ،قطر ،ابو ظبہی ،دوبئی اور شارجہ کئی مرتبہ مطالعاتی دورے کئیے۔وہ راولپنڈی اسلام آباد پر یس کلب کے جوائنٹ سیکرٹری نا ئب صدر اور راولپنڈی اسلام آباد یو نین اف جرنلسٹ کے جنرل سیکرٹری ،راولپنڈی سٹی کرائمز کورٹس ایسوسی ایشن کے سر پرست اعلیٰ جسیے عمدوں پر فائز رہے،اصغر شاد نے متعدد کتا بیں تحریر کیں، جن میں سر فہرست سابق وزیر اعظم کی بائیو گرافی ،بینظر بھٹو پاکستان اور جمہوریت ،پوچھ مجھ سے حسن آوار گی ،شہر کی بات ہیں ۔۔انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے یاد گار ڈرامہ سریل تحریر کیے۔2006ء کے لیے بیسٹ ڈرامہ رائیٹر کا پی ٹی وی ایوارڈ ،،،1994میں قاری اورنگزیب کیس کی خصوصی سٹوری پر حکومت پاکستان نے گولڈ میڈل دیا۔
2014 اسلام آباد میں انگلینڈ کی تنظیم کی طرف سے ٹرینگ کا انعقاد کیا گیا ،جس میں اصغر شاد اور میں نے بھی شرکت کی اس سیشن کے دوران اصغر شادنے اپنی کتاب (دوستی کا سفر)گفٹ کی ۔۔۔ جس میں انہوں نے ڈنمارک ،ناروے کے مطالعاتی دورے کا مشاہدہ،،،بڑے منفرد اور خوبصورت انداز میں قلم بند کیا ،،دورے کے دوران اصغر شاد کو ڈنما رک کی قدیم ترین اور تاریخی یو نیورسٹی ARHUS UNIVERSITY میں war on terror پر وہاں کی نوجوان نسل کو ان محرکات سے آگا ہ کر نے کا موقع ملا جن کی وجہ سے دہشت گری جنم لیتی ہے ۔
اصغر شاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی ہزاروں وارداتوں میں فوجی افسران ، جوان پولیس اور رینجرکے اہلکا ر شہد ہو چکے ہیں ، ان واقعات میں شہری کتنے شہید ہوئے ؟ اس کا اپ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ،، کوئی دنا ایسا نہیں ،،جب ہم لاشیں نہ اٹھا تے ہوں،، زخمیوں کو ہسپتا ل نہ پہنچاتے ہوں، ایسے زخمی جو مردوں سے بد تر ہیں ، جو اب پوری زندگی اپنی لاش کو خود ہی اپنے کندھوں پر اٹھائے پھریں گے ، ایسا ایسا المیہ جنم لیتا ہے کہ خدا کی پناہ ،، یہ ہمارے وطن میں معمول بن چکا ہے ،میں ان تما م واقعات اور وار داتوں کا مکمل تجز یہ یا احا طہ کروں تو برملا کہہ سکتا ہوں کہ جو سو ساسٹی انصاف کی فراہمی میں بخل سے کام لے وہا ں با لا اخرسد شت گردی کی فیکٹر یاں کھل جاتی ہیں،جب کسی کو کسی کا حق نہ ملے ،، تو پھر یہ ہو نا فطرتی عمل ہے ،، مگر اس کا بھی ایک مرتبہ پھر جائز ہ لینا ہوگا ،،کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟،،، تو میں آپ کو عرض کرتا ہوں ،کہ کسی بھی پراڈکٹ کی چھوٹی یا بڑی مارکیٹ ہو تی ہے ، جہاں خرید وفروخت کا دھندہ کیا جاتا ہے ،یہ کا روبار کر نے والے بیو پاری ، بڑا ذہن اور زرخیز دماغ رکھتے ہیں، وہ بھا ئو تائو کر نے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ،، تو ایسے میں اگر انسانوں کا بیو پار کرنا ہو تو سو چئے، کیسا ماخول درکا ہو گا ؟ ،،آپ میری اس بات پر کہ ”انسانوں کا کاروبار ”اس پر حیران نہ ہوں،، جی ہاں انسانوں اور انسانیت کا کا روبار ۔۔۔ کر نے والے انسان کی شکل میں دراصل شیطان ہیں،، ایسے مکروہ چہرے ۔۔ جو دراصل خوبصورت ماسک کے پیچھے ،، اس قدر خوبصورتی سے چھپے ہوتے ہیں کہ ،، ان کا ہمسایہ بھی انہیں پہچا ننے سے قاصر ہے ،، یہ شیطان پھر اس ما رکیٹ میں نکلتے ہیں ،، جہا ں انہیں با آسانی اپنی پسند کا ما ل وافر مقدار میں مل جاتا ہے ،،،انہیں زما نے اور حالات کے ٹھکرائے نوجوان ،، بھوک اور بیرزگار ی سے تنگ آئے
ٍٍ نوجوان ،، حسرت یاس اور نا امیدی کے خول میں بند نوجوان ،، انصاف کی تلاش میں سر گرداں نوجوان ،، تھک ہار کر ،، کسی فٹ پاتھ پر پڑے نوجوان ،، وڈیروں اور اہلیان اقتدار کی چوکھٹ سے کسی جانور کی طرح بند ھے نوجوان ،، بڑی تعداد میں مل جا تے ہیں ،، چار دن کے بھوکے کو اگر کھاس کی گھڑی بھی دے دی جا ئے تو وہ اسے پل بھر میں چٹ کر جائے ،،، یہ ہے انسانی المیہ جو صدیوں سے جاری ہے اور نہ جا نے کب تک جا ری رہے گا؟ ۔۔ اس میں صرف نوجوان ہی نہیں ،، کمسن لڑکے حتی کہ لڑکیاں اور بوڑھے بھی شامل ہیں ،، یہ وہ آسان شکار ہیں ۔۔ جو تحزیب کا روں اور وطن دشمنوں کے لیے حلوہ قرار پا ئے ہیں ،، انہیں معمولی ٹرینگ دے کر ،، اپنے مز موم مقاصدکے لیے استعمال کیا جا تا ہے ،،،جب وہ استعمال ہو تے ہیں ،، جہاں سینکڑوں لوگ جان دیتے ہیں،،تو وہاں اپنی جا ن سب سے پہلے ،، چندٹکوں کی خا طر گنوا دیتے ہیں ،، میں ااپ کو یہاں دلخراش واقعہ سناتا ہوں ،، جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ،، میں سو چتا ہوں کہ اس المیہ کا ذمہ دار کو ن ہے؟ ،، وہ دہشت گرد ،حکمران یا سوسائیٹی ؟،، اس کا جواب مجھے آ ج تک نہیں مل سکا ۔۔۔۔
پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد کے قریب ،،ایک سرد اور سیاحتی مقام (مری) کے نام سے دنیا بھر میں معرو ف ہے جہا ں کچھ عر صہ قبل ،، ایک سترہ سا لہ نوجوان نے خود کش حملہ کیا ، اس نے یہ حملہ ایک سرکاری سکول میں کیا تھا جسکی وجہ سے متعدد ہلا کتیں ہو ئیں،، جب اس دہشت گرد کی لاش کا معائنہ کیا گیا تو ،، اسکی جیب میں سے ایک پر چی برآمد ہوئی،، جس میں اس نے اپنی پا نچ سالہ بہن کے لیے ایک خط چھوڑا تھا ،، جس میں اس نے تحریر کیا کہ ،، تم ہرروز مجھ سے آئس کریم ما نگا کر تی تھی ،، لیکن میں کیا کرتا ،،، میرے پاس پیسے جو نہیں تھے،، ااج میں تمھیں 2ہزار روپے بھیج رہا ہوں ،، تم خوب مزے مزے کی آئس کرم کھا نا ،،، مگر اب تمہارا بھائی ،، تمھیں کبھی نہیں ملے گا ،،،
اس لڑکے کو دہشت گرد لکھا گیا ،، لیکن اس دہشت گرد کے عمل بد کو ” معاشی نا ہمواریوں کا انتقام ::: بھی کہا جا سکتا ہے ،،، یہ پہلی پر چ ہی نہیں ،،، ایسی ان گنت نصبیو ں کی پر چیاں ۔۔۔جا بجا بکھری پڑی ہیں ،، کسی اور کے عہد معشیت میں بھی ایک لڑکی نے اپنی نصیب کی پرچی پر اپنے ماں باپ کو مخاطب کرتے ہو ئے لکھا تھا مجھے اندازہ ہے کہ ہمارے گھریلو حالات اس قابل نہیں کہ،میرے جہیز کا بوجھ برداشت کر سکیں، میں اپنے والدین کو جہیز کے مشکل ٹیسٹ میں نہیں ڈالناچاہتی، میں وہاں جا رہی ہوں،، جہا ں جہیز کی نہیں،، صرف کفن کی ضرورت ہو گی ، لیکن اس گھر سے کفن بھی نہ نکل سکا ہمسایوں کو کفن کا بندبست کرنا پڑا ،معاشی دہشت گردی ۔۔ تمام دہشت گردیوں کی ما ں ہو تی ہے ، لیکن ہمارے ملک اور ہما ری سو سایٹی کا عجیب المیہ ہے ، کرپشن کو جب خطرہ ہو تا ہے تو جمہو ریت نہ جا نے کیوں خطرے میںآجا تی ہے ، کرپشن کو معاشی دہشت گردی کے قانون کے شکنجے میں جکڑے بغیر ،معاشی انصاف ممکن نہیں۔۔
حفیظ شیخ صاحب :، اپکی معاشی ہنرمندی کی دنیامعترف ہے معاشی اعشار ئیے کیے ہیں منفی ہیںیامثبت ؟ آپ بتا کتے ہیں قوم کی قسمت سنوارنے کے اعداد شمار کوخوش رنگ کرنا آپ کو آتاہے حکومت وقت نے اسد عمر کے عہدے اور عزت کا صدقہ کر کے ،، معشیت کی مسند آپ کے حوالے کر دی ہے،،اب جو کرنا ہے آپ نے ہی کرنا ہے، روایتی بجٹ سازی اپ کے لیے کوئی بڑا ہدف نہیں ہے ، اس میں تو ا پ کمال رکھتے ہیں تبدیلی کے اس عہد کی نسبت سے ،،اس دفعہ بجت سازی کا کوئی نیا انداز ،کوئی منفرد روپ ہونا چاہئیے۔جسے تاریخ کو اور کرنا تاریخ کی مجبوری بن جا ئے ،، اس بار آئس کریم بجٹ بنا کر دنیا کو حیران کر سکتے ہیں ۔
یہاں تو غربت کی یکسر تک جعلی اور خودساختہ ہے ،غربت کیسے ختم ہوگی ،نہ جانے محروم طبقوں کو اپ کیسے اٹھائیں گے، غربت تو تہہ در تہہ خوفنا ک اوروحششناک صورتحال میں موجود ہے سرکاری غربت کی لکیر کے نیچے ،غربت کی گہری کھائیاں ہیں ، اور اس کے نیچے غربت کی اندھیر نگریاں ہیں ،اپ کا کبھی وادی غربت سے گزر ہوتا،، تو اپ کے علم میں آتا کہ فاقہ کشی کی اذیت کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے رات کو خالی ہاتھ گھر واپس انا کتنا دردناک ہو تا ہے بچے بچنا کتنے مشکل ہو تے ہیں اپ کو اندازہ ہوتا خودکشی کن حالات میں کی جا تی ہے اپ کو اس کا ادراک ہو تا ۔
حفیظ شیخ صاحب: اس بار بجٹ سازی زیادہ مشکل انداز میں نہ کریں ، خوفناک اعداد شمار کو خوشنما اعداد وشمار میں بے شک نہ بدلیں، اس بار صرف اور صرف ان عام سے ضرورت مندوں کی زندگیاں اتنی آسان بنا دیں ،تاکہ والدین کو سڑکوں پر اپنے بچوں کے لیے برائے فروخت کا بورڈ لکا کر گاہگ نہ تکاشنے پڑیں ۔ کسی بیٹے کو بیمار ماں کی دوائی خریدنے کی مجبوری کے لیے ۔کسی سے موبائل نہ چھیننا پڑے ، کسی امن پسند کو اس ما لی عدم استحکا م ،،دہشت گرد وں کے درپر مالی معاونت حاصل کرنے کے لیے نہ لے جائے کسی بیٹی کو جہیز کے لیے خودکشی نہ کرنا پڑے ،، اور کسی بھا ئی کو ،، بہن کی آئس کریم کھا نے کی آرزو پوری کر نے کے لیے ، بارودی جیکٹ۔۔۔پہن کر کے۔۔۔، دھما کہ کر کے۔۔۔اپنے سر کو 20فٹ بلند نہ اچھانا پڑے۔۔۔
حالات کی نبض پر ہاتھ رکھا جا ئے تو۔۔۔دامن میں شاید آئس کریم بجٹ کے علاوہ ۔۔۔ کسی اور بجٹ کی گنجا ئش ہی نہیں ۔۔۔