تحریر : شمائلہ عادل 6 ماہ میں تمام شناختی کارڈز کی دوبارہ تصدیق کی جائے گی، جعلی شناختی کارڈز کی تصدیق پاکستان کی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ اس عرصہ میں شناختی کارڈز رکھنے والے ڈھائی کروڑ خاندانوں کی تصدیق کی جائے گی۔ جعلی شناختی کارڈز بنانے والوں اور جس نے مدد کی وہ دو ماہ کے اندر نشاندہی کر دے۔ مقررہ وقت گزرنے کے بعد سخت کارروائی ہوگی، جعلی شناختی کارڈز کے حامل افراد کو 7 سال جبکہ مدد کرنے والے نادرا اہلکاروں کو چودہ سال قید کی سزا ہو گی۔
تین سال میں 826 نادرا اہلکاروں کیخلاف کارروائی کی گئی جبکہ دو سالوں میں 29 ہزار پاسپورٹس کو منسوخ کیا گیا۔ یہ الفاظ تھے وفاقی وزیر داخلہ پاکستان چودھری نثار علی خان کے۔ دوبارہ تصدیق کی بات سنتے ہی مرے اوسان خطا ہوگئے۔ میں بہت پریشان تھی کہ کیا پھر سے وہیں ہوگا جو کچھ ہفتے قبل ہوا تھا۔ پچھلے ہفتے جب ننھی ثمر کی مما اپنے شناختی کارڈ کی مدت ختم ہو نے کی وجہ سے دوبارہ بنوانا تھا تو تین دن نادرا آفس کے چکر لگاتی رہی مگر کام نہ ہو سکا۔ پھر چوتھے روز ایک ہزار کے نوٹ والے قوم کے بابا نے ان کا کام فوراً کروا دیا۔
ID Card Recertification
نادرا کے دفتر کے باہر لگی لائنیں دیکھ کر سوچا کہ ایک دن میں اتنے سارے لوگ ہزار ہزار میں اپنے شناختی کارڈ بنوا لیتے ہیں۔ شاید جعلی شناخت کارڈ بنوانے والے بھی انہیں میں سے ایک ہوں گے۔ جب یہاں پر اصلی اور ٹھیک والا شناختی کارڈ بنوانے کے لیے ہزار روپے لیے جاتے ہیں تو نا جانے جعلی پر کتنے نوٹ چھاپے جاتے ہوں گے۔
حکومت شناختی کارڈ کی دوبارہ تصدیق او ربندوں کی شکلوں پر شکوک و شبہات کی بجائے اگر نادرہ کے افسران کی دوبارہ تصدیق کرتی تو شاید نہ ہی کوئی جعل سازی کا مرتکب ہوتا اور نہ ملکی سالمیت خطرے میں پڑھتی۔ مگر افسوس صد افسوس کہ رشوت کی وبا تو ملک کے ہر شعبے میں کینسر کی طرح سرایت کرتی جارہی ہے۔ ایک مہینے پہلے گلی کے تمام گھروں کی بجلی چلی گئی تھی۔ کئی دن گزرنے کے باوجود بجلی کے محکمے نے اس خرابی کو ٹھیک کرنے کے لئے کوئی پیش رفت نہیں کی۔ حالانکہ گلی کے تمام لوگ شکایت درج کرا چکے تھے۔
Chaudhry Nisar
ایک طرف گرمی اور دوسری طرف کے الیکٹرک کی عدم توجہ بچوں سمیت بڑوں کا رو رو کر برا حال ہوگیا تھا۔ بالآخر گلی کے تمام لوگوں نے بجلی کے کرتا دھرتا کی مٹھی گرم کردی اور ایک مرتبہ پھر سے بجلی بحال ہوگئی۔ اتنا ہی نہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اس وبا کی ایسی لپیٹ میں ہیں کہ جیسے انہیں لگتا ہے وہ رشوت نہیں لیں گے تو ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہے جائیں گے۔
گزشتہ روز ایک منظر دیکھنے کو ملا۔ ویسے تو ایسے مناظر ہر دوسرے سگنل پر مل جاتے ہیں ۔بائیک پر دو لڑکوں کو ٹریفک پولیس اہلکار روک کر کھڑے ہوئے تھے۔ جانے ان کا کیا مسئلہ تھا مگر قوم کے بابا کی تصویروں سے مزین دو لال نوٹوں نے ان کا مسئلہ حل کر دیا تھا اور وہ پھرتی سے بائیک چلا کر لے گئے۔
اگر ہم اپنے ملک کی بنیادوں کا بھی خیال رکھتے تو شاید غیرت قومی میں ہی ہم رشوت ، لوٹ کھسوٹ اور کرپشن جیسی بیماریوں سے بچ جاتے۔ مگر یہاں صورتحال اس قدر تشویشناک اور قابل افسوس ہے کہ شریعت اسلامیہ نے راشی اور مرتشی دونوں کے لیے جہنم کی وعید سنائی ہے۔
حکومت کا حالیہ اقداما اگر بہت عمدہ ہے تاہم خود حکومتی اداروں میں رشوت جیسی بیماری سے خود کو بچانا ہوگا۔ یاد رکھیں رشوت وہ موذی مرض ہے جس کی وجہ سے نہ تو ہمارے ادارے پختہ ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ہماری سالمیت محفوظ رہے سکتی ہے۔
Bribery
آج حکومت کو یہ بڑا اقدام کرنے کی ضرورت صرف اس لیے پیش آئی کی چند نادرا میں موجود راشی آفیسران نے پوری چند ٹکوں کے عوض پوری قوم کے تحفظ کو داﺅ پر لگا دیا۔ انہیں راشی افسران کی وجہ سے غیر ملکیوں کو پاکستان میں آسانی سے جگہ مل جاتی ہے اور پھر وہ ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بڑے اقدامات کریے جائیں اس قبل اپنے ملک سے رشوت کو ختم کرنا ہوگا۔ رشوت اور کرپشن کے خاتمے سے ہی ملکی سالمیت اور دفاع ممکن ہے۔