خیالِ روشن

U.S.

U.S.

گیارہ ستمبر 2011 کو امریکہ پر ہونے والے حملوں نے پوری دنیا کی سیاست کی بنیاد یں ہلا کر رکھ دیں اور امریکہ سمیت پوری دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ غیر ریاستی عناصر کو پالنے اور انکی خفیہ امداد کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ یہ حملے نہ صرف امریکہ کے لیئے قاتلانہ تھے بلکہ افغانستان اور پاکستان کے لاکھوں لوگوں کے لیئے بھی قاتلانہ ثابت ہوئے۔ ان حملوں کی وجوہات اور انکے نتائج کے لیئے ہمیں ماضی کو بھی کھنگالنا ہوگا۔ یہ جنگ شروع اسی وقت ہو گئی تھی جب امریکی اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں روسی عزائم کو سرد جنگ کے ذریعے روکنا ہے۔ امریکیوں کے پاس سرمائے اور ہتھیاروں کی کوئی کمی نہیں تھی اور نہ ہی پاکستانیوں کے پاس لڑنے والوں کی کوئی کمی تھی۔

ہمارے اوپر چونکہ اس وقت ایک فوجی ڈکٹیر بزور طاقت حکمران تھا اس لیئے اس جنگ کی مخالفت میں اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دیا جاتا نہ ہی کوئی بحث مباحثہ ہوا اور نہ اس جنگ میں کودنے کی صورت میں ہونے والے نقصانات کے بارے میں سوچا گیا۔ آج ہم اگر روس کے قبضے کو ناجائز قرار دیں کہ اس نے ایک خو د مختار ملک کی سا لمیت پر حملہ کیا تھا تو ہمیں امریکی حملے کو بھی اسی صورت میں دیکھنا ہوگا۔ ہمارا اس جنگ میں اس منطق کے ساتھ کودنا کہ روس ہمارے بارڈر پر آجائے گا اگر ٹھیک تھا تو کیا ایک سپر پاور جسکو ہمارے ملک کی اکثریت اپنا دوست خیال نہیں کرتی۔

اسکا ہماری سرحدوں اور ہمارے ملک کی سرحدوں کے اندر گھس جانا خطرناک نہیں ہے ؟ہمیں پہلے تو یہ ماننا ہوگا کہ آج جو پوری دنیا میں دہشت گردی ہو رہی ہے چاہے وہ کسی ملک کی خود مختاری پر حملے کی صورت میں ہو یا بے گناہوں اور معصوموں کو دھماکوں میں مارنے کی صورت میں ہو ہم اسکو اس حد تک لے جانے میں امریکہ بہادر کے ساتھ برابر کے حصہ دار ہیں۔ امریکیوں نے تو یہ مان لیا کہ دشمن کا دشمن ضروری نہیں کہ آپکا دوست ہو اور انھوں نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد اپنے آپکو اس عفریت سے بچانے کے لیئے تاریخ ساز اقدامات اٹھائے کیونکہ وہاں کی جو قیادت ہے وہ نہایت ہی قابل اور بہترین لوگوں پر مشتمل ہے۔

Media

Media

وہاں موجود تھنک ٹینک امریکہ کی پالیسی پر بہت اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسکے بعد انکے میڈیا میں اگر اسٹیبلشمنٹ کے پے رول پر لوگ موجود ہیں تو لوگوں کو حقیقت سے روشناس کرانے والے لوگ بھی موجود ہیں جس سے لوگوں کو اپنا راستہ چننے میں بہت حد تک آسانی ہو جاتی ہے۔ امریکی عوام نے جو فیصلہ کیا وہ اپنے آپکو بچانے کے لیئے ایک بہت اچھا فیصلہ تھا مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ پہلے اس فیصلے کے فوائد و نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کرتا اور ساری دنیا کو اپنا ہمنوا بناتا اور فوجی حملے سے پہلے انکی رسد چاہے وہ لڑنے والے لوگوں کی صورت میں ہویا سمگلنگ اور ہتھیاروں کی صورت میں ہو کو بند کرتا۔

مگر اس نے سوچے سمجھے بغیر اس جنگ میں کودنے کا فیصلہ کیا یہ جنگ امریکہ جیتا ہے یا ہارا اس میں پڑے بغیر یہ دیکھنا ہوگا کہ امریکہ آج ان دہشت گردوں سے محفوظ ہے یا نہیں۔ امریکہ نے گیارہ ستمبر کو ہونے والے حملوں کے بعد اپنی کمزوریوں پر نظر ڈالا ان پر پردہ نہیں۔ اپنی کمزوریوں کو دور کیا اور ایک ڈیپارٹمنٹ بنایا ( کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ ) جو مکمل طور پر خود مختار ہے جسے اس چیز سے کوئی غرض نہیں کہ ہماری سٹیبلشمنٹ کیا سوچتی ہے اور اسکے کیا مفادات ہیں اسکا کام صرف اپنی قوم کے لوگوں کو دہشت گردوں سے بچانا ہے۔ امریکہ آج دہشت گردوں سے محفوظ بن چکا ہے۔

اگر امریکہ کا ٹارگٹ اپنے آپکو دہشت گردوں سے محفوظ کرنے کا تھا تو امریکہ یہ جنگ جیت چکا ہے لیکن اگر اسکے مقاصد کچھ اور تھے جیسے کہ افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت کا قیام، چین اور روس کی سرحدوں کے قریب جا کر بیٹھنا اور ان وہ ریاستیں جو روس سے جدا ہوئیں ہیں ان سے تعلقات کو مضبوط کرنا تو میرے خیال میں امریکہ کے یہ مقاصد پورے نہیں ہونگے۔ کیونکہ امریکہ کے لیئے اپنی مکمل طاقت کے ساتھ افغانستان میں موجود رہنا تقریباّ ناممکن ہے اور اسے بہرحال افغانستان سے نکلنا ہوگا اور افغانستان سے نکلنے کے بعد افغانستان میں کس کی حکومت قائم ہوگی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے میں صرف اپنے ملک کی بات کروں گا کہ ہم نے اس جنگ میں پڑ کے کیا کھویا اور کیا پایا۔ ہم نے روس کے خلاف لڑنے والے گوریلے یہ سوچ کر تیار کیے تھے کہ ہم اسے بھارت کے خلاف کشمیر کے حصول کے لیئے استعمال کریں گے اور اس طرح ہم کشمیر کو حاصل کر لیں گے وہ حکمت عملی تو کامیاب نہیں ہوئی الٹا وہ بلا ہمارے گلے پڑ گئی۔ ہمارے لوگوں میں شدت پسندی ایک ایسی حد تک پہنچ چکی ہوئی ہے کہ اب اسے ختم کرنے کے لیے ایک عرصہ درکار ہے۔ ہم نے ابھی تک دہشت گردی سے نبٹنے کے لیئے کوئی حکمت عملی نہیں بنا ئی نہ کوئی ایسا ادارہ بنایا جو کہ دہشت گردی سے نبٹ سکے ہمارے موجودہ اداروں کا یہ حال ہے کہ ” سالا ایک سکندر پورے اداروں کو یرغمال بنا لیتا ہے۔

Radicals

Radicals

پوری جماعتوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ شدت پسندوں سے مذاکرات کیے جائیں گے لیکن کن شرائط پہ بات کی جائے گی یہ نہیں طے کیا گیا اور یہ بھی طے نہیں کیا گیا کہ ہم نے کہاں تک جانا ہے اور کن لوگوں سے مذاکرات کرنے ہیں، کیا ان عوامل کو حل کرنے کی جانب کیا سوچا گیا ہے جن سے یہ شدت پسندی بڑھ رہی ہے؟ جو لوگ ہمارے جنازوں پر حملے کر رہے ہیں کیا وہ ہمارے اپنے لوگ ہیں؟ جو ہمارے بچوں کو مار رہے ہیں وہ کس بنیا د پر مار رہے ہیں کیا ہم نے ان کے نظریے کو غلط ثابت کرنے کے لیئے کوئی عملی اقدامات کیے ہیں۔ انھیں جہاد کے لیئے کمک کہاں سے مل رہی ہے اور وہ طبقہ جو اپنے جسم کے ساتھ بم باندھ کر اپنی زندگی کو ختم کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔

ہماے لیئے اصل خطرہ وہ ہیں اگر انکی کمک کو ختم کر دیا جائے تو ہم اس جنگ سے نبٹ سکتے ہیں لیکن اس کے لیئے ضرورت خلوص نیت اور دلیرانہ فیصلوں کی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ ہمیں دشمن کے دشمن کو اپنا دوست سمجھنے کی پالیسی کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا اور اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگا۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارے برادر اسلامی ملک جس پر ہمیں فخر ہے یعنی کہ سعودی عرب اس نے ہم سے ہمارے تیار کردہ ٹینک خریدنے سے انکار کر دیا ہے اور خبر یہ ہے کہ وہ اب اسرائیل سے ٹینک لے گا۔ اس فیصلے کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ ہم نے ہر سطح پر صرف پاکستانی بن کر سوچنا ہے اور ایک مسلمان مملکت ہونے کے ناطے اپنے شہریوں کے جان ومال کا تحفظ کرنا ہے۔

میاں نواز شریف صاحب کو قوم نے مینڈیٹ دیا ہے اور اب انکی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ہماری ڈوبتی کشتی کو کنارے لگانے کے لیئے عملی کوششوں کا آغاز کریں۔ جو لوگ پاکستان کی رٹ اور آئین کو تسلیم کریں انکے جتنے بھی مطالبات ہوں مان لینے چاہئے اور انھیں ہتھیار چھوڑ نے پر مجبور کیا جائے اور جو لوگ پھر بھی جنگ پر آمادہ ہوں تو انکے ساتھ جنگ کی جائے اور اسکے لیئے معاشرے کے ہر فرد سے مدد لی جائے شاید ہم افراد سے قوم میں تبدیل ہو سکیں اور اب اپنی غلطیوں کو سدھارنے کا یہ ہمارے پاس آخری موقع ہوگا۔
تحریر : زاہد محمود
zahidmuskurahat1122@gmail.com
03329515963