تحریر : امتیاز علی شاکر تاریخ کائنات کے ارواق کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ اس دنیا میں مثالی حکومت اسلام کی تربیت حاصل کرنے،اللہ تعالیٰ ،رسول اللہ ۖ کے احکامات پرپورا عمل کرنے،اوراولیا ء اللہ کی صحبت اختیارکرنے والوں نہیں کی ،جن میں سرفہرست مثالی حاکمین سرکاردوعالم ۖ کے صحابہ ارکرام ہیں ،حضرت ابوبکرصدیق کی وفات کے بعد جب عام لوگ حضرت عمر کے ہاتھ پربعیت کرچکے توآپ نے منبر پرکھڑے ہوکریہ خطبہ دیا،اے لوگو،میں بھی تمہاری ہی طرح ایک انسان ہوں، مجھے حضرت ابوبکرصدیق کی نافرمانی کا خیال نہ ہوتاتومیں تمہارا امیر اور حاکم بننا کبھی پسند نہ کرتا ،لوگو،اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہارے لئے آزمائش بنایا ہے ،تم میں جونیک کام کرے گااُس کے ساتھ نیک سلوک کروں گااور جو بُرائی کاارتکاب کرے گااسے عبرت ناک سزا دوں گا،عرب کی مثال اس اُنٹ کی ہے جواپنے ساربان کامطیع ہے۔
اس کے ساربان (رہنمائ)کافرض ہے کہ وہ اسے کس طرف لے جارہا ہے ،میں(حضرت عمر)اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکرکہتاہوں کہ تمہیں سیدھے راستے پرلے کرچلوں گا ”تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عمر کے دورخلافت میں چلنے والا نظام حکومت نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ ساری دنیا کے لئے اپنی مثال آپ ہے”وطن عزیزکاحال یہ ہے کہ ایک چوردوسرے چور کی تلاشی لینے کی بات کرتاہے،بھلایہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کرپٹ شخص دوسرے کرپٹ شخص کا احتساب کرے اورپھر جس کی جیب میں چوری کامال ہو، طاقتور بھی ہو وہ تلاشی نہیں دیاکرتا۔وسیع تر سلطنت کے حکمران ہونے کے باوجود حضرت عمر نے انتہائی سادہ زندگی بسر کی ،آپ اکثر مدینہ منورہ کی گلیوں میں پیوند لگے لباس میں گشت کیا کرتے،اکثر مقامات پر اینٹ کا تکیہ لگائے بلا تکلف سوجاتے ،خود بھی سادگی پسند کرتے اور اپنے حکام کو بھی سادگی کی تلقین کرتے تھے۔
ایک لباس سردیوں کااور ایک گرمیوں کارکھتے ،کبھی کبھی صرف ایک جوڑا ہوتا جسے دھوکرپہن لیتے ،آپ گزربسر کے لئے صرف دو ،درہم روزانہ بطور وظیفہ لیتے ۔قارائین محترم کالم کے آخر میں آپ کو حضرت عمر کا ایک قول سنائوں گاجومسلم ریاست کے حاکم کی حیثیت اورذمہ داری کا مکمل نمونہ پیش کرتا ہے ۔ پاکستان کے عوام اور حکمران حضرت عمر کی طرح سادگی پسند ہوتے تو آج وی وی آئی پی کلچر اس قدر نہ پھیلتا، وی آئی پی کلچر کو تمام مسائل کی جڑ ہیں ۔آج ہر طرف سفارش ، رشوت ،کرپشن ،اقرباء پروری اور بے ایمانی کابازار گرم ہے ۔سرکاری محکمے تو اپنی جگہ پرائیوٹ مقامات پر بھی سفارش کی ضرورت پڑتی ہے ۔کچھ دن پہلے میرے بیٹے کوتیزبخار ہوگیاہروالدکی طرح میرابھی دل چاہا کہ علاقے کے اچھے ڈاکٹر سے علاج کروائوں ،آپ جانتے ہیں کہ اچھے ڈاکٹرکی فیس بھی اچھی خاصی ہوتی ہے،بچے کولے کر ڈاکٹر صاحب کے کلینک پہنچا تو وہاں مریضوں کاکافی رش تھا،میں بھی ٹوکن لے کر اپنی باری کاانتظار کرنے لگا۔
Patient
آپ کو یہ سن کر حیرانگی نہیں ہوگی کہ ڈاکٹر صاحب ٹوکن والے ایک مریض کے ساتھ چار سے پانچ وی آئی پی مریض چیک کررہے تھے ،کوئی دو گھنٹے انتظار کرنے کے بعد میں نے اپنے ایک دوست کوفون کیا جو ڈاکٹر صاحب کا بھی دوست ہے ۔اُسے ڈاکٹر کو فون کرکے سفارش کرنے کو کہا،اُس نے فون کر کے میری سفارش کردی ،سفارش کا اثر یہ ہواکہ داکٹر صاحب کی نرس نے آکر پوچھا کے امتیاز صاحب کون ہیں اور کمرے میں چلی گئی ،جب سفارش کے بعد ایک گھنٹا گزر جانے پر بھی میری باری نہ آئی تومیںنے ڈاکٹر صاحب کے ایک ملازم کو پچاس روپے کے ساتھ اپنا وزٹنگ کارڈ دے کر کہا کہ پچاس روپے آپ کے ہیں یہ کارڈ ڈاکٹرصاحب تک پہنچادیں ،کارڈ کا ڈاکٹرصاحب کے سامنے جانا تھا کہ مجھے اندر بلا لیا گیا ،ڈاکٹرصاحب نے کھڑے ہوکر استقبال کیا اور فوری طور پر ٹھنڈے پانے کے بعد چائے کاآڈر بھی کردیا ۔ڈاکٹر صاحب کے عام مریضوں والے کمرے کے پیچھے ایک وی آئی پی مریضوں کوبیٹھانے والا کمرہ تھا ،مجھے اُس کمرے میں بیٹھا کر پانی،چائے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب نے آدھاگھنٹا ٹائم دیا اور آئندہ میرے لئے ٹوکن سسٹم بھی بند کردیا۔
یہ سارا قصہ بیان کرنے کا مقصد ہے کہ جب ایک مسیحا فیس لے کر بھی انصاف نہیں کرتا تو پھر واپڈا،سوئی گیس ،تھانے عدالتوں ۔سرکاری ہسپتالوں میں جہاں ایک بیڈ پرچار چار مریض ایک ہی وقت میںڈال دیئے جاتے ہیںاور دیگر محکموں میں انصاف کون اور کس کو فراہم کرے گا؟ جہاں حکومت کوبجلی بحران، مہنگائی، دہشتگردی، کرپشن ،امن وامان کی خراب صورت حال،بے روز گاری وغیرہ وغیرہ کاسامنا ہے وہاں سفارش ،کرپشن،رشوت ،اقرباء پروری اور وی وی آئی پی اور خوشامدی کلچر کے چیلنج کا سامنا بھی ہے۔
راقم کا خیال ہے کہ وزیراعظم میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف وی آئی پی کلچر، کرپشن، سفارش ،اقرباء پروری اور رشوت کے ساتھ ساتھ باقی تمام چیلنجزکا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں پھربھی وہ رشوت ، کرپشن، سفارش ،اقرباء پروری اوروی، وی آئی پی اور خوشامدی کلچر کو ختم نہیں کرپائیں گے کیونکہ رشوت ، کرپشن، سفارش،اقرباء پروری اور اس کے علاوہ بہت سی خرابیوں کی فصل وی آئی پی کلچر کے کھیت میں اُگتی ہے اور وی آئی پی کلچر کے سارے کے سارے کسان میاں برادران کے ارد گرد جمع ہوچکے ہیں اور جوباقی بچیں ہیں وہ بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔
Bribery
قارائین آپ جانتے ہیں کہ کوئی کسان اپنے کھیت کھلیان کو اجڑتے نہیں دیکھ سکتا اور پھر وی آئی پی کھیت ۔اِن کھیتوں میں کسی بھی فصل کاکوئی خاص موسم نہیں ہوتا ،کرپشن، رشوت،سفارش،اقرباء پروری ایسے پھل پھول ہیں جوان کھیوں میں ہر وقت پکے ہوئے تیار ملتے ہیں ۔وی آئی پی کلچر آج ہمارے معاشرے میںبہت زیادہ مضبوط ہوچکا ہے ۔چیرمین ،ناظم،ایم پی اے یا ایم این اے قسم کے لوگ کبھی برداشت نہیں کرتے کہ اُن کے حکم کے بغیرکوئی ادارہ بھی کام کرے ۔واپڈا،گیس،تھانے سے لے کر گلی کوچوں کی صفائی کرنے والا عملہ بھی کسی شہری کی جائز بات اُس وقت نہیں سنتا جب تک کسی ناظم ،ایم پی اے یا پھر ایم این اے کا فون نا آجائے ۔اُس پر عوام کی خوش فہمی دیکھیں وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے کہنے پر اتنی پڑی شخصیت نے سیورج کھولنے والوں کو فون کرکے اُن پرخاص احسان کیا ہے ،سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کو اسلامی ،فلاحی ریاست بنائے بغیر مسائل کے گردآب سے نہیں نکلنا ممکن ہے؟۔
بحرانوں سے نکلنے کیلئے سرکار دوعالم حضرت محمدۖ اور اُن کے غلاموں کی سادگی اور عاجزی کو اپناناہوگا۔آج ہم جن مسائل کا شکار ہیں یہ سارے ترقی یافتہ دورکی پیداوار ہیں جس نے ہمیں ہمارے دین سے دور کرکے تباہ برباد کردیا ہے۔کتنی دردناک حقیقت ہے کہ ہم نے ایٹم بم تو بنالیا پرکسی بلند بلڈنگ پر لگی آگ میں جلتے ہوئے انسانوں کو بچانے کے لئے ہمارے پاس کوئی انتظام نہیں ؟یقین کے ساتھ کہاجاسکتاہے کہ ایسی حقیقتوں پر ہرمخلص پاکستانی کادل خون کے آنسوروتا ہے۔
قارائین اب میں آپ کی نظر حضرت عمر کا وہ قول کرتا ہوں جس کا آپ سے وعدہ کیا تھا۔آپ فرماتے ہیں کہ”مسلمانوں کے مال پر میرااتنا ہی حق ہے جتناایک یتیم کے مال پر متولی کا ہوتا ہے ”یہ یاد رہے کہ حضرت عمرنے جب یہ قول فرمایا اُس وقت وہ مسلمانوں کی عظیم سلطنت کے عظیم حاکم تھے ۔ حضرت عمر ایسے مثالی حاکم ہیں جن کاطرزحکمرانی آج غیرمسلم بھی اپناناچاہتے ہیں۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر imtiazali470@gmail.com 03154174470