اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) رہنما مسلم لیگ (ن) خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کی ہدایات لندن میٹنگ میں سات دسمبر کو قیادت کی طرف سے دی گئی تھیں، لندن میٹنگ میں حلف لیا گیا تھا کہ اس میٹنگ کی تفصیلات یہاں سے باہر نہیں جائیں گی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ نواز شریف اسپتال میں تھے تو ایک دن بھی 100سے زائد افراد جمع نہیں ہو سکے، لاہور سے مارچ گزرا تو ہمارے لوگ اس میں شریک نہیں ہوئے، سوشل میڈیا اور ووٹ دینے کے حق تک لوگ حمایت کرتے ہیں لیکن باہر نہیں نکلتے۔
سروسز ایکٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ آرمی ایکٹ ترمیم کی حمایت کرنے سے ہمارے نظر یے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، جب میں نے بتایا کہ آرمی ایکٹ کی ترمیم کی حمایت کا فیصلہ نواز شریف کی ہدایات کی روشنی میں کیا گیا ہے تو پارٹی میٹنگ میں مجھ پر تنقید کی گئی لیکن رانا تنویر، خرم دستگیر، پرویز رشید اور ایاز صادق نے اعتراف کیا کہ میں کچھ اپنے پاس سے نہیں کہہ رہا جو کچھ کہا وہ پارٹی قیادت کا حکم تھا، آرمی ایکٹ پر جو فیصلہ میاں نواز شریف نے کیا اس پر عمل درآمد کیا گیا، اگر وہ اس کے برعکس فیصلہ کرتے تو بھی فیصلے کی تعمیل کی جاتی۔
رہنما ن لیگ نے کہا کہ گزشتہ 30 سالوں میں کبھی پارٹی کے فیصلوں کے خلاف کھل کر بات نہیں کی چاہے مجھے وہ فیصلے پسند ہوں یا ناپسند ہوں، مسلم لیگ نون کے 84 میں سے 73 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیا،چار ارکان چھٹی پر تھے، سعدرفیق، شاہد خاقان، چوہدری عاصم اقبال نہیں آئے۔
ان کا کہنا تھا جماعت نے جو فیصلہ کیا درست تھا میں اس کی مکمل حمایت کرتا ہوں، اگر میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کا مخالف ہوتا تو ووٹ نہیں ڈالتا، شہبازشریف کوئی فیصلہ نواز شریف کی مرضی کے بغیر نہیں کرتے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ جو لوگ نظریے کی بات کرتے ہیں انہیں دیکھنا چاہیے کہ میاں نواز شریف نے کتنی قربانیاں دی ہیں، دوبھتیجے قید میں ہیں، مریم نواز کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے،کاروبار تباہ ہو چکے ہیں،گھر تک داؤ ٴپر لگ چکے ہیں، میاں نوازشریف اس سے زیادہ کیا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ آج ہماری جماعت اور نواز شریف پر تنقید کر رہے ہیں وہ پاناما کے معاملے پر نوازشریف کے خلاف کھڑے تھے، لوگ کیا سوچتے ہیں اس سے غافل ہو جائیں تو آپ کی سیاست ختم ہو جاتی ہے، مسلم لیگ نون سمجھتی ہے کہ انتخابات 2018 میں دھاندلی کی گئی ہے۔
ممبر قومی اسمبلی نے کہا کہ عوام سیاستدانوں پر تنقید کرتے ہیں، احسن اقبال، شاہد خاقان، پرویز رشید اگر آرمی ایکٹ پر میڈیا سے گفتگو نہیں کر رہے تو یہ سوال بھی ان ہی سے ہونا چاہیے، میں پارٹی کا موٴقف پیش کر رہا ہوں، پارٹی فیصلوں سے اختلاف ضرور رجسٹر کرانا چاہیے لیکن پارٹی کا فیصلہ ہی آخری فیصلہ ہوتا ہے، اگر کوئی اپنے نظریے کی ترویج کرنا یاپارٹی کے فیصلے کی نفی کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کا اختیار ہے، ہماری جماعت میں بل کی حمایت پر اختلاف بھی ہوا لیکن تقریباً پوری پارٹی نے ووٹ کاسٹ کیا۔
رہنما ن لیگ نے کہا کہ مریم نواز سے آرمی ایکٹ کی حمایت پر مشورہ ہوا یا نہیں اس کا مجھے علم نہیں، پارٹی کو کچھ نقصانات ایسے ہوتے ہیں جسے وہ سنبھال سکتی ہے لیکن کچھ نقصانات کا ازالہ ممکن نہیں ہو پاتا، پارٹی کا ایک واٹس ایپ گروپ میں نے اپنی مرضی سے چھوڑا ہے۔
ان کا کہنا تھا شاہد خاقان عباسی نے مجھ پر تنقید کی یا نہیں، اس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا، ساتھیوں کے ساتھ اچھا وقت گزرا ہے، کسی چیز کو عوامی مسئلہ نہیں بنانا چاہتا، کبھی پارٹی سے اختلاف ہو گا تو کبھی اسے عوام کے سامنے بحث کا موضوع نہیں بناؤٴں گا، اگر پارٹی کے کسی فیصلے سے برملا اختلاف کروں اور اسے عوامی مسئلہ بنالوں تو مجھے جماعت چھوڑ دینی چاہیے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ نواز شریف قائد ہیں جو فیصلہ کریں گے وہ قبول ہوگا، سیاسی جماعتوں میں گرے ایریاز ہیں، نظریہ ضرورت عدلیہ، میڈیا اور سیاستدان استعمال کرتے رہے ہیں، امید ہے مستقبل میں سیاست بہتر ہوگی، سلیکٹرز اور سلیکٹڈ ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا اے پی سی اور رہبر کمیٹی میں واضح کر دیا تھا کہ ہم کسی دھرنے کا حصہ نہیں بنیں گے کیوں کہ ہم دھرنے کا شکار ہو چکے ہیں، نواز شریف کے باہر جانے میں دھرنوں کا کوئی دباؤ نہیں تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا تنقید کے لیے آسان فورم ہے، جمہوریت کی بالادستی کے لیے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکلنا ہو گا، مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے اور مزید بڑھ سکتی ہے ۔