نظریاتی، سیاسی اور اعتقادی اختلافات

ALLAH

ALLAH

تحریر : ایم پی خان
اللہ تعالیٰ نے ہرانسان کو سوچنے اور اچھے برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت دی ہے۔تاہم ہر انسان کے سوچنے کااندازدوسرے سے مختلف ہوتاہے۔ کسی ایک چیز، مسئلے یاایشوکے بارے ہرانسان کااپناالگ زاویہ نگاہ ہوتاہے۔ہرشخص اسے مختلف اندازسے دیکھتا ہے اوراپناالگ اورمنفردنقطہ نظر رکھتاہے۔یہ سوچ اورنقطہ نظر ایک نظریے کوجنم دیتاہے ، جس کے تحت انسانی زندگی کاسارانظام چلتاہے۔اس نظریے کے پیچھے اسکے عقائد، تصورات ، مشاہدات اورماضی کے تجربات کارفرماہوتے ہیں۔چونکہ تمام انسانو ں کی سوچ، ذہنی استعداداور فہم وادراک ایک جیسا نہیں ہوتا ، اسلئے انکے نظریات بھی ایکدوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔یہی سے انسانی زندگی تفائوت اورنظریاتی اختلاف کاشکارہوجاتی ہے۔نظریاتی اختلافات ہردورمیں اوردنیاکی ہرقوم میں پائے جاتے ہیں اور یہی انسانی زندگی کاحسن ہے۔کیونکہ یہ اختلاف حقائق تک پہنچنے اورتحقیق اورجستجوکاذریعہ ہے۔

ہمارے نبی کریم نے یہی اختلاف باعث رحمت قراردیاہے۔کیونکہ اس اختلاف کی بدولت ہم حقائق کے ان پہلوئوں تک پہنچ سکتے ہیں ، جوہمارے سوچ ونظرسے پوشیدہ ہوتے ہیں۔لیکن اس ضمن میں ایک بات قابل توجہ ہے کہ ہم اختلاف کو باعث مخالفت نہ سمجھے بلکہ اسے ایک طاقت سمجھے۔ زیادہ سے زیادہ لوگ اگرکسی مسئلے پر سوچتے ہیں تواسکاکوئی بھی حل نکل سکتاہے۔لیکن اس سلسلے میں ہماری نظرمیں وسعت کا ہوناضروری ہے۔ہمیں اپنے مقام نظرسے اٹھ کر دوسروں کے مقام نظرسے دیکھناہوگااوراختلافات کو دل وجان سے تسلیم کرناہوگا۔

ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہم اختلافات سے نفرت کرتے ہیں اورہمیں دوسروں کے سوچ، فکر اورنظرئے کے سامنے ہمیشہ اپنانقطہ نظرارفع دکھائی دیتاہیاورہمیں ہراس شخص سے نفرت ہوتی ہے جوہمارے نظرییکاحامی نہ ہو۔ہمیں اپنے مقابلے میں ہرشخص کانقطہ نظرغلط دکھائی دیتاہیاوراس لئے ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں بلکہ بسااوقات ہماری نفرت دشمنی کی حد تک پہنچ جاتی ہے اورپاکستان میں تواکثریہی نظریاتی اختلافات انتہاپسندی اورقتل وغارت کاسبب بنتے ہیں۔

Politics

Politics

ہماراسیاسی نظام بھی بری طرح اس قسم کے اختلافات کے زدمیں ہےہرلیڈر کااپناایک نام نہادنظریہ ہوتاہے اوروہ اس نظریے کی بنیاد پر عوام کو بیوقوف بناتاہے۔عوام اندھادھند بغیرسوچے سمجھے اوربغیرکسی تحقیق کے پارٹی کے منشورکے فروغ کے لئے ہمہ تن سرگرم عمل رہتے ہیں۔بلکہ اکثرتوبغیرتحقیق کے محض اپنے باپ داداکی تقلید کرتے ہوئے کسی پارٹی میں ہوتے ہیں۔کیونکہ تحقیق کے لئے علم اورعلم کے لئے لکھنے پڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے اوریہی لوگ ان صفات سے مبرا ہوتے ہیں۔دن رات اپنے نظریے کو درست ثابت کرنے کے لئے دوسروں کے سوچ، فکر اورنظرئے پربری طرح تنقیدکرتے ہیں۔اس مقصدکے لئے بے بنیاد اورجھوٹے دلائل کے انبارلگائے جاتے ہیں۔حالانکہ مقابلے کایہ طورترقی یافتہ اقوام میں نہیں ہوتا۔

دوسروں سے اونچااڑنے کے لئے اپناپرواز بلند رکھناچاہئے اورنظریں آسمان پر رکھنی چاہئے،نہ کہ ہماری نظریں دوسروں کے کمزوریوں پرہو۔ جولوگ کسی کو نقصان پہنچاتے ہیں،ان کو بدنام کرتے ہیں،ان سے حسد کرتے ہیں یاان سے الجھتے ہیں ، وہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔یہی حال ہمارے ملک میںموجود تمام پارٹیوں کاہے۔لیڈرزایکدوسرے کے خلاف کافی نازیباکلمات اور مبتذل الفاظ کااستعمال کرتے ہیں اورایکدوسرے کے نظریات کو کم تراورباطل ثابت کرنے کے لئے ہرمحاذ پر خوب مشق سخن جاری رکھتے ہیں۔جب اتنے بڑے لیڈروں کیطرز گفتارکایہ عالم ہوتوپارٹی کے عام ورکروں کاکیاکہنا۔

یہی نظریاتی اختلاف ، سیاسی اختلافات کاسبب بن جاتے ہیںاورپھرکچھ زیادہ محب سیاست کارندے، جن کی تنگ نظری کادائرہ بہت وسیع ہوتاہیاورانکی سوچ، فکر اورنظرئے بہت محدودہوتے ہیںاوروسیع النظری، وسعت قلبی اورروشن خیالی کاان کے پاس سے گزربھی نہیں ہواہو، ان کااشتعال قابل دیدہوتاہے۔ملک کے ہرحصے میں بحث ومباحثے کی خوب محفلیں جمی رہتی ہیں۔جہاں ایکدوسرے کے نظریے کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی گرماگرم مناظرے ہوتے ہیں۔بلکہ بسااوقات توبات عزت نفس مجروح ہونے تک پہنچتی ہے اورصرف یہی نہیں اکثرایکدوسرے کے عقیدوں پرحملے کرتے ہیں۔ایک دوسرے پر تیزوتند جملوں کے ساتھ ساتھ کبھی کبھارپتھروں کے واربھی کئے جاتے ہیں۔ایک کاگریبان پھاڑدیاجاتاہے تودوسرے کاسرپھوڑدیاجاتاہے۔

Protest

Protest

میراذاتی مشاہدہ ہے کہ ایسے بہت سے لوگ جواپنے قائدکے نظریے اورپارٹی کے منشورکے سواہ سب کچھ غلط، بے بنیاد اورباطل سمجھتے ہیں ، بلکہ اپنے مخالفین کومذہبی تنقید کابھی نشانہ بناتے ہیں۔ان کا خیال ہوتاہے کہ جولوگ انکے حامی ہیں اورانکے نظریے کوسپورٹ کرتے ہیں ، وہ زندگی کے ہرشعبے میں کامیاب ہیں بلکہ وہ انکو دین دنیامیں فلاح اورکامیابی کاسرٹیفیکٹ دے دیتے ہیں جبکہ کچھ جاہل اپنی کم علمی اور جذبات کی طغیانی میں ہمارے علمائ کرام کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ایسے میں معاشرہ بری طرح افرای تفری کاشکارہے۔ ہرطرف نفرت کاراج ہے۔

ایک ہی مذہب کے پیروکار،ایک ہی ملک میں رہنے والے اور ایک ہی زبان بولنے والے آج کس طرح ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔اختلافات کے لئے چھوٹی چھوٹی اورمعمولی سی باتیں ،جولیڈرہمارے لئے وجوہ تنازعہ بناتے ہیں اورہم عوام ان کی اندھی تقلید کرتے ہیں اوران باتوں کو طول دے کر تشدد کاراستہ اختیارکرتے ہیں۔

توکیااس سے یہ بہترنہیں ہے کہ ہم بڑی بڑی باتوں کو اپنائیں جوہمارے لئے باعث اتفاق ہیں۔اللہ کی وحدانیت پر اورنبی کریم ۖ کے آخری نبی ہونے ہم سب کاعقیدہ ہے۔عبادات، اخلاقیات اورمعاملات سب میں ہم قرآن وحدیث کے تابع ہیں۔حقوق اللہ اورحقوق العباد بھی دل وجان سے تسلیم کرتے ہیں۔یہ بھی مانتے ہیں کہ ہم سب مسلمان ہیں ، ایک قوم ہیاورپاکستان کو ہماری ضرورت ہے۔لہذا ہمیں تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اپنی ملک کی سلامتی ، ترقی اورخوشحالی کے لئے متفق اتفاق اوراتحاد کی ضرورت ہے۔

MP Khan

MP Khan

تحریر : ایم پی خان