فلسطین (اصل میڈیا ڈیسک) فلسطینی تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے بیرون ملک سیاسی امور کے سربراہ خالد مشعل نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کا پروگرام مزاحمت اور فلسطین کی آزادی کے گرد گھومتا ہے اور وہ کسی کے خلاف جنگ نہیں چھیڑنا چاہتے۔
خالد مشعل نے کہا کہ حماس ماضی کی طرح آج بھی اخوان المسلمون کی فکر اور نظریات سے منسلک ہے۔ نظریاتی طور پر اخوان کا حصہ ہونے کے باوجود حماس ایک آزاد فلسطینی تنظیم ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حماس پہلے بھی مختلف عرب ملکوں میں موجود رہی ہے۔ ہم ایران سمیت کسی بھی ملک سے فلسطینیوں کے لیے مدد قبول کریں گے۔ بیرون ملک سے لی جانے والی امداد حماس کے آزادانہ فیصلوں کی قیمت نہیں ہو سکتی۔
ایران کی طرف سے ملنے والی امداد کے بارے میں حماس رہ نما نے کہا کہ ایران نے فلسطینیوں کی اسلحے اور ٹیکنالوجی کے آلات کے ذریعے مدد کی۔
خالد مشعل نے سعودی عرب سمیت کسی بھی ملک پر حملوں کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے سعودی عرب پر زور دیا کہ وہ ماضی کی طرح حماس کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنائے۔
ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2007ء میں سعودی عرب نے فلسطینی تنظیموں کے درمیان اتحاد کے لیے’اعلان مکہ‘ کرایا مگر اسرائیل نے یہ سارا کھیل الٹ دیا۔ اس کی ذمہ داری حماس پر عاید نہیں کی جاسکتی۔ حماس اس مصالحتی اعلان کیسے الٹ سکتی تھی۔ اس کے نتیجے میں حماس کو فلسطین کی قومی حکومت کا حصہ تسلیم کیا گیا تھا۔
القدس اور غزہ میں پیش آنےوالے حالیہ واقعات کے بارے میں حماس رہ نما نے کہا کہ مزاحمت کو اس وقت مداخلت کرنا پڑی جب قابض اسرائیلی پولیس نے مسجد اقصیٰ میں مداخلت کی اور فلسطینی مزاحمتی قوتوں کو القدس کے باشندوں کی آواز پر لبیک کہنا پڑا۔
اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کےتبادلے کےحوالے سے ہونے والی کوششوں کے بارے میں خالد مشعل نے کہا کہ قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ انہوں نے یرغمال بنائے گئے اسرائیلی فوجیوں کے زندہ یا مردہ ہونے کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی۔ شام کے ساتھ حماس کے تعلقات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خالد مشعل نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی نئی پیش رفت نہیں ہوئی۔