تحریر : رقیہ غزل بفضل خدا ہم پاکستان کا70واں یوم آزادی منا رہے ہیں ۔یہ ارض پاک کی آزادی کا وہ دن ہے جس دن مسلمانان برصغیر کوبرطانوی استعماراور ہندو سرکارسے نجات ملی تھی کہ مجاہدین تحریک آزادی کے عزم و استقلال ،یقین محکم اور عمل پیہم سے دنیا کا نقشہ تبدیل ہو گیاتھااور کرہ ارض پر پاکستان ایک نظریاتی، آزاد اور خود مختار وطن بن کر ابھراجس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ
غلامی میں کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
وہ کیا دلخراش اور دہلا دینے والا منظر تھا کہ کہیں خواتین کی آبرو ریزی کی جاری تھی ،کہیں معصوم بچوں کو نیزوں کی نوک پر اچھا لا جا رہا تھا ۔کہیںبزرگوں کو پائوں تلے کچلا اور بے دردی سے پیٹا جا رہا تھا ۔کہیںنوجوانوں کو روح فرسا اذیتیں اور سزائیں دیکر موت کے گھاٹ اتارا جا رہا تھا ۔کہیںبہنوں کو بھائیوں کے سامنے اور بھائیوں کو بہنوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے جا رہا تھا ۔ظلم و ستم کی چیخ و پکار سے زمین وآسمان لرز رہے تھے ۔املاک کا نا قابل تلافی نقصان کیا جا رہا تھا،ہر طرف آگ و خون کے دریا بہہ رہے تھے کہ آسمان کی سرخی بھی قہر بن کر ماحول پر چھائی تھی لیکن بلا خوف و خطر،درد میں ڈوبا پورا ہندوستان ان نعروں سے گونج رہا تھا ”بن کے رہے گا پاکستان ” ۔۔۔”لے کے رہیں گے پاکستان ”۔۔پاکستان کا مطلب کیا ”لاالہ الاللہ”۔اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی بے لوث اور ولولہ انگیز قیادت میں فرزندان توحید اور شمع مصطفوی کے پروانے اپنی علمی و فکری صلاحیتوں کے نذرانے اپنے دامن عقیدت میں ڈالے ہوئے جزبئہ جہاد سے سرشار ہوکر حصول منزل سے ہمکنار ہونے کے لیے آگ و خون کے سمندر عبور کر گئے ۔بچے ،بوڑھے ،مائیں اور بہنیں بخوشی سولی چڑھ گئے ،وقت کے فرعون انگشت بد انداں رہ گئے کہ نہتے افراد بحر ظلمات عبور کر گئے اور ہر طرف خوشی اور آزادی کے پھول کھل گئے ۔آج ہم انہی لازوال قربانیوں کی بدولت ایک آزاد اور خود مختار مملکت میں سانس لے رہے ہیں۔بے شک پاکستان کا قیام کسی معجزے سے کم نہیں تھا یہ عطائے خداوندی ہی ہے کہ مسلمانوں کو ہندوئوں اورکئی مکاروں پر فتح حاصل ہوئی جس سے ہمارے شہداء کے مقدس خون کی خوشبو اور پرجوش نعروں سے وہ تابناک کرنیں پھوٹی جو کہ وطن عزیز کے رخ روشن کو آج بھی اجالے بخش رہی ہیں ۔ان ضیا پاشیوں سے صرف ہم ہی نہیں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے شب و روزبھی انشا اللہ درخشاں رہیں گے۔
تاہم آج ہمیں نئی نسل کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ حصول پاکستان میں وہ کون سے عوامل کارفرما تھے جو اس تحریک کی بنیاد بنے اور وہ کون سے اختلافات تھے جن کی وجہ سے ایک ملک دو ٹکڑوں میں بٹ گیا ۔جبکہ آج کئی نام نہاد دانشوران اور حکمران ذاتی اغراض و مقاصد اور شہرت کی ہوس میں نئی نسل کو الجھا رہے ہیں اور اپنے مفادات کے حصول کیلئے رسوا ہو کر خود بھی دشمن کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن چکے ہیں جبکہ ہمیں اس نظریے کو عام کرنے کی ضرورت ہے جوہماری تحریک آزادی کی بنیاد بن کر دنیا کو حیران کر گیا اور وہ تھا ”دوقومی نظریہ ”کہ جو پاکستان کی اساس ہے ۔جو کہ ہمہ گیر ہے اور مسلمانوں کی زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہے ۔یہ نظریہ بانیء پاکستان کے اس جملے سے با آسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ ”پاکستان اس دن معرض وجود میں آگیا تھا ،جب ہندوستان میں پہلا غیر مسلم مسلمان ہوا تھا ”۔بے شک ہم دونوں قوموں میں صرف مذہب کا نہیں ، کلچر کا بھی فرق ہے ،ہمارا دین ہمیں ایک الگ ضابطہء حیات دیتا ہے اور ہم اسی ضابطے کے تحت زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں ۔جب یہ نظریاتی اختلاف مسلمانان ہند کو سمجھ آگیا توانھیں زندگی کا بھی شعور آگیا اور باشعور نظریاتی قوم اپنے حق کے لیے ہر چٹان سے ٹکرا گئی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ مقاصد اور منفرد نظریات جو قیام پاکستان کے وقت پیش نگاہ تھے آج تک ان پرپوری طرح عملدرآمد ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ۔اور اس میں سب سے بڑی رکاوٹ اشرافیہ ہے ۔بدقسمتی سے وہی طبقہ صاحب اقتدار ہے اور طاقت ور ہے بریں وجہ تمام وسائل موجود ہونے کے با وجود ابتری ہمارا مقدر بن چکی ہے کیونکہ ہم نے اپنے قائد کے افکار کو بھلا دیا ہے اور اقبال ڈے کو خرافات قرار دے دیا ہے ۔قائد اعظم نے کہا تھا کہ اگر ہمیں ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو غریب کی حالت بہتر کرنا ہوگا۔مگر روز اول سے حکمرانوں نے یہ سوچ لیا کہ اگر غریب ان کے برابر بیٹھ گیا تو وہ کس پر حکومت کریں گے۔ اور اس سوچ نے ملکی ترقی و خوشحالی کو دائو پر لگا رکھا ہے۔
قائد اعظم عام آدمی خصوصاً مزدور طبقے کی فلاح و بہبود چاہتے تھے ،آپ نے ولیکا ٹیکسٹائل مل کے افتتاح کے موقع پر 6ستمبر1947کو فرمایا تھا کہ ”مجھے امید ہے کہ آپ نے اپنے کارخانہ کا پلان تیار کرتے وقت کاریگروں کیلئے مناسب رہائشی مکانات اور دوسری آسائشوں کا خاص طور پر اہتمام کیا ہوگا ۔کیونکہ کوئی بھی صنعت اس وقت تک حقیقتاً فروغ نہیں پاسکتی جب تک اس کے مزدور مطمئن نہ ہوں ”۔انھوں نے ہمیشہ خود کو اسلام اور پاکستان کا خاد م سمجھا اور واشگاف الفاظ میں کہاکہ پاکستان دوسری بڑی اسلامی ریاست ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ آج:۔ تقاضا کر رہا ہے اب وطن کا ہر گلی کوچہ یہاں جاری کسی صورت نظام مصطفی کر دو
اسلام دشمن قوتوں کو علم ہے کہ پاکستان امت مسلمہ کی قیادت کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اس لیے وہ مسلسل پاکستان کے خلاف سازش کرنے میں مصروف ہیں ۔لیکن دشمن کسی ملک کی بزدل فوجوں کو تو شکست دے سکتا ہے مگر عوامی نظریات کبھی شکست نہیں کھاتے اور مسلمانوں کی کامیابی نظریات میں پوشیدہ ہے جو ناقابل شکست ہے ۔مسلمانان برصغیر نے جس اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیا وہ اسلامی دنیا کے لیے ایک مثال ہے ،آج مسلم امہ کے اتحاد کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کلیدی اور قائدانہ کردار ادا کر سکتا ہے۔ مگر اس مقصد کے لیے قائد اعظم کی فکر کو اپنانا ہوگا بد قسمتی سے ہم نے اسلام کے ماننے والوں کے اندر انتشار کو اس قدر بڑھا دیا ہے کہ مسلکی معاملات دینی مفادات پر غالب آگئے ہیں ۔اگر ہم سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں دین کو ہر حال میں مقدم رکھنا ہوگا ۔اگر ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور تمام لوگوں کو یکساں مواقع دینے کا نظام رکھتے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان مسلم امہ کی یکجہتی اور اتحاد میں ایک اہم اورقائدانہ کردار ادا کر سکے گا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ اس ملک میں وہی قانون چلے گا جو آج سے تیرہ سو برس قبل نبی کریمۖ لائے تھے ۔آج ہمیں قائد اعظم کے فرمودات کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا ۔تعلیمی لحاظ سے قوم کو مستحکم کرنا ہوگا ۔قائداعظم کا فرمان تھا کہ جب تعلیم عام ہوگی تو نوکر شاہی کو من مانی کرنے کا موقع نہیں ملے گا ۔وہ کہتے تھے کہ”میں سمجھتا ہوں کہ حاکمیت کے تکبر کا نشہ ٹوٹنا چاہیئے اب آپ حاکم نہیں ہیں اب آپ کا تعلق حکمران طبقے سے نہیں ہے ،اب آپ کو ملازموں کی طرح فرائض سرانجام دینے چاہیں۔سیاست آپ کا کام نہیں ہے ۔آپ کا کام خدمت ہے جو سیاسی جماعت اکثریت حاصل کر لے گی وہی حکومت کرے گی اور آپ کا فرض ہے کہ آپ اس وقت کی حکومت کی خدمت کریں ،سیاستدانوں کی حیثیت میں نہیں بلکہ خادموں کی حیثیت میں ۔مجھے احساس ہے کہ قدیم روایات ،قدیم ذہنیت ،قدیم نفسیات ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہیں اور ان سے نجات پانا آسان نہیں ہے ۔اب یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ عوام کے سچے خادموں کی حیثیت میں کام کریں ”۔
آج ہمیں گوناگوں مسائل درپیش ہیں ۔ملک اندھیروں میں ڈوبتا جا رہاہے ۔دینی و نظریاتی تشخص دائو پر لگ چکا ہے ۔ملکی سلامتی و دفاع میں غیر ملکی یارانے رخنا ڈالے ہوئے ہیں ۔فرقہ واریت اور تعلیمی گراوٹ نے عدم برداشت کو ہوا دے رکھی ہے ۔ہر کوئی اس قدر ڈھٹائی سے جھوٹ بولنے اور لوٹ کھسوٹ میں مشغول ہے کہ جنوں کا نام خرد اور خرد کا نام جنوں پڑچکا ہے ۔جبکہ حکمرانوں کا نعرہ ہے کہ پاکستان ایک مضبوط اور خوشحال فلاحی ریاست بن کر دنیا کوحیران کر چکا ہے ۔اگرچہ مجموعی صورتحال تشویشناک ہے مگر ہم پھر بھی نا امید نہیں ہیں کیونکہ نا امیدی کینسر ہے جومستقبل کو کھا جاتی ہے اس لیے مسلمان کو بہر صورت پر امید رہنا چاہیئے کہ اللہ پرُ امید لوگوں کو پسند کرتا ہے۔
آج ہمیں یہ عہد کرنا چاہیئے کہ ہم وطن عزیز کو قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال و دیگر مشاہیر تحریک آزادی کے افکار و نظریات کےمطابق ایک جدید اور اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے ۔ہمیں قائد و اقبال کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے نئی نسل کی نظریاتی تعلیم و تربیت پر بطور خاص توجہ دینا ہوگی ۔احیائے دینی کو عام کرنا ہوگا ۔ہمیں اپنے بچوں کو اسلاف کے کارناموں سے روشناس کروانا ہوگا ہمیں بتانا ہوگا کہ اسٹینلے والپرٹ نے تحریر کیا کہ ”چند افراد نے تاریخ کا دھارا بدلنے کی نمایاں کوشش کی اور صرف چند دنوں میں دنیا کا نقشہ بدل دیا ۔لیکن شاید ہی کسی رہنما کو قومی ریاست قائم کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہو ۔محمد علی جناح نے یہ تینوں کارنامے سرانجام دئیے ۔”ہمیں آج انہی نظریات کی آبیاری کرنے کی ضرورت ہے اگر ہم حقیقتاً قائد و اقبال کے خوابوں کی تعبیر چاہتے ہیں توحکومت کو چاہیئے کہ نصاب تعلیم میں اکابرین ملت اسلامیہ اور مشاہیر تحریک پاکستان کے احوال و آثار و شامل کیا جائے اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کیا جائے اسلامی تعلیمات اور اقدار کو نافذ کیا جائے تاکہ ہماری نئی نسل اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چل کر دنیا و آخرت یعنی دونوں جہانوں میں سر خروہو سکے تاکہ پاکستان اقوام عالم میں ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے ہو کہ امت مسلمہ کے لیے بھی مضبوط ڈھال بن سکے اور دشمن سن لے کہ نظریات کو شکست نہیں دی جا سکتی اور پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اسی لیے پاکستان نا قابل تسخیر ہے۔میری دعا ہے کہ :۔
پھلا پھولا رہے یارب ! چمن میری امیدوں کا جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے ہم نے پالے ہیں