تحریر : انجینئر افتخار چودھری نواز شریف ایک نظریئے کا نام ہے جی ہاں اور وہ یہ ہے کہ میں اور میری بیٹی کے سوا پاکستان میں سب جھوٹ ہے اور نظریہ ء پاکستان جائے بھاڑ میں نواز شریفی نظریہ چلے گا۔نون سے نواز اور نواز کا نظریہ لوگ ایک دوسرے سے فون کر کے خیریت دریافت کر رہے ہیں۔کسی کو علم نہیں یہ آگ اب کہا تک پھیلے گی اور اس کا انجام کیا ہو گا۔اندر کے ایک بندے کا کہنا ہے کہ اس حکومت پر ایک سابق نا اہل وزیر اعظم کا سایہ ہے اور وہ بیرونی ایجنڈے پر عمل درآمد کر رہے ہیں ۔ان کی سوچ ہے کہ وہ دنیاوی خدائوں کو بتائیں کہ ہم روشن خیال ماڈرن اور لبرل لوگ ہیں ہم تو پاکستان سے توہین رسالت اور ختم نبوت کے قوانین کی تبدیلی کے لئے کسی حد تک جا سکتے ہیں۔اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔حکومت تو نالائق تھی ہی لیکن اتنی بھی نہیں وزیر داخلہ بھی وہ جو ٢٠٣٠ کا ویزن دکھاتے ہیں لیکن اگلے آنے والے دس پندرہ دنوں کے بارے میں جانتے تک نہیں۔آج اسلام آباد میں دھرنے کے شرکاء کو زبردستی اٹھانے کے لئے حکومت اس عدالتی فیصلے کی آڑ لی جن عدالتوں کا سر عام مذاق اڑایا جاتا ہے۔
شرکاء پر اندھا دھند شیلینگ کی گئی اطلاعات کے مطابق دس سے زیادہ شہادتیں ہو گئی ہیں۔عوام سے ان کا جاننے سننے کا حق چھین لیا گیا ہے سوشل میڈیا کی معروف ویب سائٹس بھی بند ہیں۔۔بعض کا خیال ہے کہ یہ دھرنا بھی سپانسرڈ ہے اور یہ سارا پلان اس نا اہل شخص کا ہے کہ وہ اپنے اوپر کیسوں کی توجہ ہٹانے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔اللہ جانتا ہے سارا دن دکھ اور افسوس میں گزرا پاکستان بھر سے جو اطلاعات فون کے ذریعے مل رہی ہیں۔وہ ٹھیک نہیں ہیں۔معاملہ اب وزیر قانون زاہد حامد کے استعفی کا نہیں اب تو اس حکومت کو جانا ہو گا۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین نے بھی جلد انتحابات کا مطالبہ کر دیا ہے۔لگتا ہے اب آگ اور خون کی ہولی کھیلی جائے گی۔اس ملک کی کشتی کو ایک بار منجدھار میں دھکیل دیا گیا ہے۔ایک اللہ ہی ہے جو اسے اس بحران سے نکال دے۔ اور اللہ الحق ہے مجھے ڈر یہ ہے کہ ایسے میں اس اقلیت کی جان کو خطرہ جس کے لئے ملک کے اندر طاقتیں کوشاں ہیں اور جن کے لئے یہ ترامیم کی گئی ہیں۔ایسا ہوا تو مزید ذمہ داری بھی اس نالائق حکومت پر عائد ہو گی۔
موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے مجھے ذاتی طور پر یہ توقع نہ تھی کہ وہ اس قسم کا خونی آپریشن کرنے کا حکم دیں گے۔خاص طور پر ان کے حلقے سے جڑے علاقے میں سب کچھ ہوا۔سب کو یاد ہو گا کہ آگ اوجھڑی کیمپ میں لگی تھی جس کو بجھانے ان کے والد شہید خاقان عباسی مری سے چلے اور راستے میں شیل لگنے سے شہید ہو گئے ۔آج کی آگ بھی اسی کیمپ کے نزدیک لگی ہے اور شہادتیں ہوئی ہیں فرق یہ ہے کہ وہ ایک کیمپ میں لگی آگ کو بجھانے آئے تھے اور یہ آگ ان کے صاحبزادے نے خود لگائی ہے۔وزیر داخلہ احسن اقبال کے کیا کہنے؟انہیں تو اس آپریشن پر سب سے پہلے استعفی دینا چاہئے۔کہ وہ دو ہفتوں سے زائد وقت ملنے کے باوجود ان مظاہرین کو قائل نہ کر سکے۔اور آخر کار انہیں یہ کار خراب کرنا پڑا۔کوئی سینتیس سال پہلے حرم پاک میں باغیوں نے قبضہ کر لیا والدین ان دنوں حج کے لئے گئے ہوئے تھے میں جدہ میں بسلسلہ روزگار موجود تھا۔قابضین کی سازش تھی کہ وہ سعودی حکمران شاہ خالد بن عبدالعزیز کو سال ہجری کی ابتداء والے دن صبح فجر کی نماز کے بعد گرفتار کریں اور حکومت کا تختہ الٹ دیں۔
اس سے قبل جنازوں میں بہت سا اسلحہ کھجوریں حرم میں پہنچا دی گئی تھیں ۔شاہ خالد تو نہ آئے مگر باغیوں نے وہاں قبضہ کر لیا۔میناروں کے اوپر ماہر نشانہ باز پہنچا دئے گئے دوسری جانب نمازیں بند طواف رک گیا۔میں اس واقعے کا عینی شاہد ہوں والدین کو ملنے ایک جمعے والے دن مسجد بلال جسے مسجد ہلال بھی کہتے ہیں وہاں جا کر حرم کے مناظر دیکھے ان دنوں بڑی آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا۔کوئی سترہ دن حرم مکی قبضے میں رہا۔بعد ایک انتہائی منظم آپریشن کے بعد باغی گرفتار کر لئے گئے۔حرم کے اندر پانی چھوڑا گیا خاص طور پر باب عبدالعزیز سے جب اندر داخل ہوں تو چند قدم کے بعد طے خانوں میں قابض باغیوں نے ٹھکانے بنا لئے تھے ۔پانی کے اخراج کو بند کیا گیا اور اس علاقے میں پانی روک کر ہلکے بجلی کے جھٹکے لگائے جو انسانوں کو تکلیف دیتے تھے۔باغی باہر نکلے اور انہیں گرفتار کر کے عدالتوں میں مقدمات چلے اور سزائیں ملیں۔میرے کہنے کا مقصد تھا کہ وہاں حرم مکی میں اللہ کے گھر میں خونریزی سے بچا گیا اور مناسب تدبیریں استعمال کر کے اس مسئلے کا حل نکالا گیا۔لال مسجد کے واقعے کو دیکھا جائے تو یہ بھی ہماری اس وقت کی نالائقی کا بڑا واقعہ تھا کہ فاسفورس تک استعمال کیا گیا۔قران جلائے گئے اور بچے مار دئے گئے۔اس پر لوگوں کے اپنے خیالات ہوں گے لیکن لال مسجد کا واقعہ پاکستانی تاریخ کا سیاہ واقعہ ہے۔اس کے بعد سچ پوچھیں چراغوں میں روشنی نہیں ہے۔پاکستان میں پھیلی انارکی کے پیچھے لال مسجد کا اندوہناک واقعہ ہے۔اسے کوئی مانے یا نہ مانے یہ بیج ہمارے اپنے بوئے ہوئے ہیں۔ہو نہیں سکتا کہ ہم گولی بو کر بم نہ کاٹیں ۔ ایک خاص مکتبہ ء فکر کے لوگ اس واقعے کے بعد ایسے مشتعل ہوئے کہ ان میں سے کچھ نے آئین پاکستان سے بغاوت بھی کر دی اور ایک ازلی دشمن کے ساتھ مل کر پاکستان کے طول و عرض میں آگ لگا دی۔سانحہ اے پی ایس میں یہ غداران وطن کے روپ میں سامنے آ گئے اور ١٦ دسمبر کے اس واقعے نہ قوم کو مزید دکھی کیا۔
اب ظلم یہ ہوا ہے کہ اب اس مکتب فکر کو نشانے کی زد میں لایا گیا جو پیار محبت نعت کا پیامبر تھا جس نے کبھی گولی لاٹھی اور بندوق کی بات نہیں کی ۔یہ طبقہ سب کا بھلا اور سب کی خیر کی بات کرتا تھا اسے بھی آج دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔ان سے بات ہو سکتی تھی ان سے مکالمہ بھی ہو سکتا تھا اور باتیں مانی بھی جا سکتی تھیں ۔شنید یہ ہے کہ ان کا سب سے بڑا مطالبہ وزیر قانون کے استعفی کا تھا۔یہ کون سا بڑا مطالبہ تھا حکومت نے اس سے پہلے لمبی زبانوں والے کئی وزراء کو کچھ عرصے کے لئے منظر عام سے ہٹایا تھا ایک زاہد حامد کیا چیز تھی۔لیکن اس اندر کے آدمی کا کہنا تھا زاہد حامد بھی ہٹنے کو تیار تھے لیکن انہوں نے کہا تھا کہ میں سب کچھ اگل دوں گا کہ اندر ہوا کیا ہے اور یہ بات شائد اس آسیب کو وارا نہیں کھاتی تھی جس نے پیچھے رہ کر یہ کام کرایا ہے۔ نواز شریف ایک نظریئے کا نام ہے جی ہاں اور وہ یہ ہے کہ میں اور میری بیٹی کے سوا پاکستان میں سب جھوٹ ہے اور نظریہ ء پاکستان جائے بھاڑ میں نواز شریفی نظریہ چلے گا۔ایک مختصر عرصے میں یہ تاثر پید اہو چکا تھا کہاب شاہد خاقان اپنے قدموں پر چلنا شروع ہو گئے ہیں لیکن قومی اسمبلی میں ١٦٣ لوگوں نے اس تاثر کو زائل کر دیا ہے اور بقول پنڈی بوائے سانپ زخمی ہے اور زخمی سانپ زیادہ خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے۔پاکستان مسلم لیگ نے اس سے پہلے سانحہ ء ماڈل ٹائون کا کارنامہ ء شر انجام دیا تھا اب ان کی حکومت میں یہ دوسرا بڑا واقعہ ہوا ہے۔اس وقت پاکستان کی جمہوریت کو چاہنے والوں کا خدشہ درست بھی مانا جا سکتا ہے جن کا کہنا ہے کہ جمہوریت کے دشمن یہ چاہتے ہیں کہ یہ اگر ہماری نہیں تو کسی بھی نہیں ہونی چاہئے اور ان کی خواہش ہے کہ ملک پر مارشل لاء لگا دیا جائے۔اس سے وہ زمینی خدائوں اور پاکستان کے عوام کے سامنے بھی سر خرو ہونا چاہتے ہیں کہ ہمارے بعد چراغوں میں روشنی نہیں ہو گی ۔اور ہم نہ کھیلیں گے اور نہ ہی کھیلنے دیں۔
یہ تھے مسائل اور اب ان کا حل کیا ہے حل سیدھا سا ہے کہ فلفور قبل از وقت انتحابات کا اعلان کیا جائے۔کسی نے کہا جمہوریت اگر کمزور ہو تو کیا کریں تو جواب ملا اور جمہوریت۔فوج بھی جانتی ہے کہ یہ چال کہاں سے چلی گئی ہے۔سچ کہا عمران خان نے کہ راجہ ظفرالحق رپورٹ کو سامنے لایا جائے جن کی ذمہ داری کا تعین کیا گیا ہے انہیں سامنے لا کر سزا دی جائے۔ان پر تنقید کرنے والوں کا منہ چپ کرانے کے لئے ان کا یہی کہنا کافی ہے کہ ختم نبوت ہمارے ایمان کاحصہ ہیں۔لیڈر کا یہ وصف خاص ہوتا ہے کہ وہ ہر واقعے کے پیچھے سیاست نہیں کرتا۔اگر سیاست کرنا ہوتی تو عمران خان ممتاز قادری کے جنازے والے دن اس حکومت کا تختہ الٹ سکتے تھے اور اب بھی اگر وہ بنی گالہ سے فیض آباد اترتے تو معاملہ کسی اور سمت جا سکتا تھا۔خونریزی ہو سکتی تھی اور ملک بھر میں آگ لگ سکتی تھی۔دھرنے والوں نے انہیں ننگی گالیاں دیں مگر انہوں نے سختی سے منع کیا کہ ایسا نہیں کرنا۔وزیر داخلہ کا دعوی ہے کہ پروفیسر ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ ان کی استادی کوئی کام نہ دکھا سکی اور تاریخ پاکستان کے ان نالائق وزراء میں شمار کر لئے گئے ہیں جو کسی کام کے نہیں ہیں۔اس واقعے پر انہیںنارووال چلے جانا چاہئے۔کوئی تو ہو جو پاکستان کے چہرے سے دھول پونچھے۔جو آگ بھڑک سکتی ہے قومی سیاسی اور مذہبی حلقوں سے درخواست ہے کہ اس آگ سے بچنے کا کوئی لائحہ عمل تیار کریں تا کہ اس آگ سے بچا جائے۔نواز شریف ایک نظریئے کا نام ہے جی ہاں اور وہ یہ ہے کہ میں اور میری بیٹی کے سوا پاکستان میں سب جھوٹ ہے اور نظریہ ء پاکستان جائے بھاڑ میں نواز شریفی نظریہ چلے گا۔نون سے نواز اور نواز کا نظریہ۔