تاریخِ عالم میں پاکستان کی تخلیق اپنی نوعیت کا ایک ایسا منفردواقعہ ہے جس کی دوسری نظیر ڈھونڈنا انتہائی مشکل ہے۔ایک ایسی مملکت جو دو قومی نظریے پر تخلیق ہوئی لیکن جس کی تخلیق کاچند سال قبل تک کوئی تصور تک نہ تھا۔ہر کوئی آزادی کا خواب سجائے ہوئے تھا لیکن اس بات سے بے پرواہ تھا کہ آزادی کے بعد برِ صغیر کا مستقبل کیا ہو گا ؟یہاں کے رہنے والے مختلف مذاہب کے افراد کے درمیان ،تحفظات اور نفرتوں کا جو طوفان اٹھنے والا ہے اور کشت و خون کا جو بازار گرم ہومے والا ہے اس سے کس طرح بچا جا سکتا ہے ؟سچ تو یہ ہے کہ ١٩٣٧ کے انتخابات تک متحدہ ہندوستان سب کا مطمعِ نظر تھا۔قائدِا عظم محمد علی جناح خود متحدہ ہندوستان کے سب سے بڑے داعی تھے اور ان کی تقاریر اسی فکرکی غماز ہیں ۔انھیں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا خطاب ان کی انہی کاوشوں کی وجہ سے ملا تھا۔ وہ سیاست میں مذہب کے خلاف تھے۔
علامہ اقبال کا دسمبر ١٩٣٠ کا خطبہ بھی قائدِ اعظم کی فکری بنیادوں کو متزلزل کرنے میں ناکام ہو گیا تھا۔جس وقت یہ خطبہ دیا گیا تھا قائدِ اعظم محمد علی جناح انگلستان میں تھے ۔انھیں خود بھی علم نہیں تھا کہ علامہ اقبال کس طرح کا خطبہ پیش کریں گے۔علامہ اقبال کا خطبہ قائدِ اعظم کی فکری سیاست سے کھلا اختلاف تھااور اس بات کا واشگاف اعلان تھا کہ برِ صغیر کی سیاست میں متحدہ ہندوستان کی کوئی جگہ نہیں بلکہ ایک علیحدہ اسلامی ریاست کے مطالبے کی باز گشت سے برِ صغیر کے درو دیوار دہل جائیں گے اور برِ صغیر کی گتھی خطبہ میں کھینچی گئی لکیر کے مطابق ہی سلجھے گی ۔ جب قائدِ اعظم سے علامہ اقبال کے خطبہ کے بارے میں استفسار کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ یہ علامہ اقبال کے ذاتی خیالات ہیں مسلم لیگ کااس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
علامہ اقبال کا نظریہ وقتی طور پر آگے نہ بڑھ سکا کیونکہ کانگریس کی مخالفت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نے بھی علامہ اقبال کے دو قومی نظریہ کو باعثِ التفات نہیں سمجھا تھا ۔ مسلم لیگ اپنے متحدہ ہندوستان کے نظریہ کے ساتھ ملکی سیاست میں اپنی جگہ بنانے کی کاوشیں کرتی رہی جو کہ بار آور نہ ہو سکیں جس کا واضح ثبوت ١٩٣٧ کے انتخابی نتائج تھے جس میں مسلم لیگ کو سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔مسلم لیگ پورے ہندوستان میں صرف چند نشستیں جیت پائی تھی ۔ کانگریس پورے ہندوستان میں فاتح ٹھہری اور اس نے سات ریاستوں میں اپنی حکومتیں تشکیل دے ڈالیں ۔ ان حکومتوں نے جس طرح مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نفرت کا اظہار کیا اس نے قائدِ اعظم کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا ان کا متحدہ ہندوستان کا نظریہ کانگریس کی موجودگی میں ثمر بار ہو سکتا ہے؟ قائدِ اعظم محمد علی جناح اسلام کے سچے شیدائی تھے لہذا بندے ماترم اور گاندھی کی مورتی کے سامنے سجدہ ریزی کے مناظر نے ان کی روح کو ہلا کر رکھ دیا اور تب ان کی سوچ کا محور علامہ اقبال کا وہ خطبہ بنا جسے انھوں نے ١٩٣٠ میں الہ آباد میں پیش کیا تھا۔اسی خطبہ میں برِ صغیر کی تقدیر قید تھی لیکن اس کا احساس سب کو بہت دیر کے بعد ہوا۔ ہندو کی مکاری اب کھل کر سامنے آ چکی تھی لہذا ان سے وسیع القلبی ،اعلی کردار اور اچھائی کی امید عبث تھی۔،۔
برِ صغیر پاک و ہند میں تین تحریریں بڑی اہم تھیں۔ایک قائدِ اعظم محمد علی جناح کے چودہ نکات جس میںمتحدہ ہندوستان کے اندر مسلمانوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کا اعادہ کیا گیا تھا۔اسمبلیوں میں ان کی نشستیں اور آئین میں تبدیلی کے لئے ایک راہ متعین کی گئی تھی جسے مہاتما گاندھی نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔مہاتما گاندھی کو کب گوارا تھا کہ ہندوستانی آئین کی تشکیل اور اس میں ترامیم کا مرکزی لیور مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہو لہذا چودہ نکات اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہو گے۔اس بات کا قائدِ اعظم کو سخت رنج تھا لیکن انھوں نے پھر بھی اپنی راہیں جدا نہ کیں۔ دوسری تحریر پنڈت جواہر لال نہرو کی نہرو رپورٹ تھی جس میں مسلمانوں کو ثانوی حیثیت دینے کا واشگاف اعلان کیا گیا تھا۔اس رپورٹ میں مسلمانوں کو شودروں جیسی حیثیت دی گئی تھی جسے قائدِ اعظم جیسی شخصیت تسلیم نہیں کر سکتی تھی ۔اس رپورٹ نے مسلمانوں کے اندر اضطرابی کیفیت پیدا کی لیکن کسی ہدف کے حصول کا اعلان نہ ہوسکا۔تیسری تحریر الہ آباد کا وہ خطبہ تھا جسے علامہ اقبال نے ١٩٣٠ میں الہ آباد میں پیش کیا تھا۔اس خطبہ میں ایک علیحدہ اسلامی مملکت کے خدو خال بیان کئے گے تھے جو ہندوئوں کو قابلِ قبول نہیں تھے لہذا ان کی جانب سے مخالفت ہونا فطری تھا۔
تینوں سوچیں تاریخ کی نائو میں ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔نائو ہچکولے کھاتی رہی ۔ہر ایک کو یقین تھا کہ اسی کی فکری قوت ہچکولے کھاتی ہوئی نائو کو ساحلِ مراد سے ہمکنار کرے گی لیکن تاریخ کا آخری فیصلہ اس خطبہ کے حق میں آیا جسے علامہ اقبال نے پیش کیا تھا۔١٩٣٠ سے ١٩٤٠ تک کا دورانیہ سب کے لئے اپنے فکری قبلہ کو درست کرنے کا وقفہ تھا اور قائدِ اعظم اس وقفہ میں حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کے ہندوئوں کے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے لہذا ان کی غورو فکر میں ڈوبی نئی سوچ نے انھیں اس خطبہ کی جانب مائل کیا جسے علامہ اقبال نے ١٩٣٠ میں الہ آباد میں پیش کیا تھا۔ علامہ اقبال تو پہلے ہی سے قائدِ اعظم کی فہم و فراست اور کردار کے دل سے معترف تھے اور اپنی ہر ممکن کوشش کر رہے تھے کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح ان کے پیش کردہ تصور کو ذہنی طور پر قبول کر لیں۔قائدِ اعظم کے نام ان کی خطوط اس جانب ہماری راہنمائی کرتی ہیں۔وہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی ذات سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے کیونکہ انھیں یقینِ محکم تھا کہ وہ متحدہ ہندوستان کا نظریہ تیاگ دیں گے اور پاکستان کا معجزہ انہی کے ہاتھوں ہی سر انجام پائیگا۔ وہ اپنے خیالات کو خطبات اور شاعری سے عوام تک پہنچاتے رہے اور انھیں ذہنی طور پر علیحدہ اسلامی ریاست کے قیام کی خاطر تیار کرتے رہے۔علامہ اقبال مشرق و مغرب کے علوم کا خزینہ تھے۔وہ اسرارو رموز کا پیکر تھے۔ عالمی سیاست اور ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔دنیا کا کونسا ادب تھا جو ان کی نظر سے نہیں گزرا تھا،دنیا کا کونسا کلچر تھا جس کا انھوں نے مطالعہ نہیں کیا تھا ؟ انھوں نے اپنی شاعری سے ایک گنگ قوم کو حق گوئی کی شاہراہ پر ڈال دیا تھا۔ان کے دلوں میں آزادی کی شمع روشن کر دی تھی۔
انھیں شعورو آگہی کا درس دے دیا تھا۔انھیں اسلام کی عظمتوں کا احساس دلادیا تھا۔انھیں یہ باور کروادیا تھا کہ ان کی ساری عظمت اسلام کے اجلے دامن میں پناہ لینے سے ہی ممکن ہے۔انھوں نے اپنے مقصد کی حقانیت کی خاطر مسلمانوں کو اسلام کی نشاظ ثانیہ کا آئینہ دکھایا تھا ۔انھیں اسوہ رسول اللہ ۖ کی سنت کی پیروی کا درس دیا تھا ۔انھیں اپنے کلچر اور ثقافت پر مر مٹنے کا جذبہ عطا کیا تھا ۔انھوں نے تصورِ خودی پیش کیا اور ایک ایسے فرد کی ذہنی نشو نما کا بیڑا اٹھا یا جو طوفانوں میں سپر انداز نہیں ہو تااور مصائب اور آزمائشوں میں جس کے قدم نہیں ڈگمگاتے علامہ اقبال کی اس فکر کو قائدِ اعظم نے ٢٣ مارچ ١٩٤٠ کو قرادادِ لاہور کے نام سے لاہور کے منٹو پارک میں پیش کر کے ایک نئے سفر کا آغاز کر دیا ۔ ١٤ اگست ١٩٤٧ کی فتح کے وہ میرِ کارواں تھے۔
ایک دفعہ عظیم سائنسدان آرشمیدس نے کہا تھا کہ اگر مجھے کوئی ایسا پوائنٹ مل جائے جہاں پر میں اپنا لیور ٹکا سکوں تو میں پورے کرہِ ارض کو اس لیور پراٹھا سکتا ہوں لہذا ثابت ہوا کہ کوئی پوائنٹ ہی وہ قوت ہوتا ہے جو فتح اور شکست کا فیصلہ کرتا ہے۔علامہ اقبال کا خطبہ وہ لیور تھا جس پر قائدِ اعظم محمد علی جناح نے پورے برِ صغیر کی سیاست کو اٹھا لیا تھا۔ وہ خطبہ نہ ہوتا تو پاکستان بھی نہ ہوتا۔پاکستان علامہ اقبال کے فلسفے کی صدائے باز گشت ہے جس میں قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اپنی جدو جہد سے رنگ بھر کر اسے ایک زندہ حقیقت بنا دیا۔تاریخ میں دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دونوں فکری طور پر ایک ہیں۔،۔