بنوں (جیوڈیسک) کچھ قبائلی عمائدین نے فیصلہ کیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے خاندان اپنی خواتین کو امدادی خوراک جمع کرنے سے روکیں۔ یہ بات پیر کو بنوں میں ایک بزرگ نے اس وقت بتائی جب رائٹرز نے انہیں خواتین کو تھپڑ مارتے ہوئے دیکھا۔
ملک قبیلے سے تعلق رکھنے والے ملک کلیم الدین کے مطابق اگر کوئی خاتون راشن تقسیم کرنے والے سینٹر آئی تو اسے سزا ملے گی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ فیصلہ اتوار کو بنوں میں چالیس سے زائد قبائلی عمائدین کی ملاقات میں ہوا۔
گزشتہ مہینے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد سےدس لاکھ کے قریب آئی ڈی پیز نے امداد کے لیے اپنا اندراج کرایا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ دوہرےاندراج اور جعلی دعووں کی چھان بین اور انہیں مسترد کرنے کے بعداس رجسٹرڈ تعداد میں کمی آ جائے گی۔
آئی ڈی پیز میں زیادہ تر انتہائی قدامت پسند خاندان ہیں، جن میں خواتین پر برقع پہننا لازمی ہے۔ دیہات میں ان خواتین کو عموماً باہر جانے سے روکا جاتا ہے لیکن بنوں میں انہیں مجبوراً خوراک، پانی اور ادویات کے حصول کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑا رہنا پڑتا ہے۔
پیر کو خبر رساں ادارے رائٹرز کے ایک صحافی نے بنوں کے مرکزی سٹیڈیم میں کلیم اللہ کو خوراک کے لیے قطار میں لگی کچھ خواتین کو تھپڑ مارتے دیکھا۔ انہیں وہاں موجود سیکورٹی اہلکاروں، مقامی صحافیوں سمیت سینکڑوں لوگوں نے بھی ایسا کرتے دیکھا لیکن کسی نے مداخلت کی کوشش نہیں کی۔
جن خواتین کو تھپڑ مارے گئے وہ قطار سے نکلیں اور واپس چلی گئیں۔ بعد میں کلیم اللہ نے پمفلٹس تقسیم کیے اور خواتین کو بتایا کہ وہ گھروں میں ہی رہیں۔ پمفلٹ کے مطابق وزیرستان کے عمائدین نے فیصلہ کیا ہے کہ آج کے بعد کوئی بھی خاتون راشن کی تقسیم کے مرکز پر نہیں آئے گی۔
پمفلٹ میں مزید لکھا تھا’ وزیرستان کے لوگ اپنی خواتین کو گھروں میں پابند کریں ورنہ عمائدین ایسے گھروں میں جا کر شوہروں کو مناسب سزائیں دیں گے’۔ پمفلٹ میں کہیں نہیں لکھا تھا کہ بیوہ اور شوہروں کے بغیر خواتین کس طرح خوراک حاصل کر سکتی ہیں۔ انسانی ہمدری کے اداروں کا کہنا ہے کہ آئی ڈی پیز میں دو تہائی خواتین اور بچے ہیں۔
ایک سیکورٹی اہلکار کا کہنا تھا کہ ‘ اس طرح کے کلچر میں خواتین کے ساتھ یہی برتاؤ کیا جاتا ہے۔ اگر وہ اِن خواتین سے لڑ سکتے ہیں تو وہ آپ سے بھی لڑیں گے’۔ ‘یقیناً اگر کوئی کسی خاتون کو قتل کرنے کی کوشش کرے گا تو سپاہیوں کو ایسا ہونے سے روکنا چاہیئے لیکن تھپڑ مارنا ان کے کلچر میں عام ہے’۔