تحریر : ممتاز حیدر رمضان المبارک کا عظیم الشان مہینہ گزر رہا ہے جس میں رب کریم کی رحمت و مغفرت کا دریا بہتا ہے، یہ رب تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے امت محمدیہ کو یہ ماہ مبارک عطا فرمایاجس میںنفس خود بخودنیکیوں کی طرف راغب ہو تا اور قلب وجگرپرروحانیت کی فضاچھاجاتی ہے۔ماہِ رمضان دراصل ایک ماہ کا ”ریفریشر کورس ” ہے جس میں ہمیں اپنے نفس کی اصلاح کرنی ہے ، اور اس کے اثرات گیارہ مہینوں تک ہم پر باقی رہنے ہیں۔رمضان کا مہینہ سنہرا موقع ہے ان لوگوں کے لیے جو نماز سے لاپرواہی برتتے ہیں کہ وہ اپنی صحت وعافیت اور جوانی کی نعمت کو غنیمت جانتے ہو ئے ماہ رمضان میں نماز کی ایسی ٹریننگ حاصل کریں کہ وہ ان کا حرزجاں اور آویزہ گو ش بن جائے ،رمضان یہ وہ ماہ مبارک ہے جس میں رشد و ہدایت کا ابدی خزینہ ، آخری الہامی صحیفہ، نسخہء کیمیا،دین و دنیا کی فلاح و نجات کا دائمی ضابطہ، سرور کائنات ۖکا سب سے عظیم معجزہ وحی رباّنی کا آخری سرچشمہ قرآن حکیم نازل ہوا۔رمضان کا مہینہ نیکیاں کمانے اور اپنی اصلاح کا مہینہ ہے۔ترمذی شریف میں حدیث ہے۔
زیدبن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے کسی روزہ دارکو افطار کروایا تواس شخص کوبھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا ثواب روزہ دار کے لئے ہوگا،اورروزہ دارکے اپنے ثواب میں سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔رمضان میں افطار پارٹیوںکے پروگرام آج کل کے دور میں ایک فیشن بن گیا ہے جس سے افطار کا مقصدفوت ہو جاتا ہے۔کچھ لوگ تو صرف نمودونمائش کے لئے افطارپارٹیاں رکھتے ہیں اور ایسے لوگ بھی ہیں جو صرف اورصرف ثواب کی نیت سے افطار پارٹی کرتے ہیں۔گزشتہ دنوں جماعة الدعوة کی طرف سے مقامی ہوٹل میں سینئر صحافیوں وکالم نگاروںکے اعزاز میں افطارڈنر کی تقریب تھی جس میں سینئر صحافیوں،کالم نگاروں کی ایک بڑی تعداد موجودتھی۔جماعة الدعوة لاہور کے میڈیا کو آرڈینیٹر عاصم علی کی دعوت پر راقم نے شرکت کی جبکہ فضل حسین اعوان،شاہد جاوید ڈسکوی،انیس الرحمان، ورلڈ کالمسٹ کلب کے سینئر نائب صدر سراد مراد علی خان،آصف عنایت بٹ،حبیب اللہ قمر،ناصر چوہان ایڈوکیٹ،کاشف سلیمان،غضنفر اعوان،ندیم نذر،ماجد امجد ثمر،محمد اصغر کھوکھر،حسیب اعجاز عاشر،ملک سلمان،حافظ ذوہیب طیب،عقیل انجم اعوان،محمد شاہد محمود،شفقت حسین،حافظ طارق عزیزو دیگر نے بھی شرکت کی۔یہ ایسی افطار پارٹی تھی جس میں صحافی برادری کو مدعو کیا گیا تھالیکن کیمروںکی چمک نہیں تھی۔دعوت نامے میں ہی کیمرہ کوریج کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔افطاری سے قبل جماعة الدعوة شعبہ سیاسی امور کے سربراہ پروفیسر حافظ عبدالرحمان مکی نے گفتگو کی۔
انہوں نے کشمیر کا مقدمہ صحافیوں کے سامنے رکھا اور کہا کہ حکومت کشمیر کے مسئلہ پر خاموش ہے۔بھارتی میڈیا بھارت کی زبان بولتا ہے اور کشمیر و پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہے جبکہ پاکستانی میڈیا کا کشمیر کے حوالہ سے وہ کردار نہیں جو ہونا چاہئے۔انکا کہنا تھا کہ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی جارہی ہے۔ حکومت کی طرف سے کشمیریوں کی سفارتی واخلاقی مدد کہیں نظر نہیں آتی؟۔ مظلوم کشمیری قوم پاکستان کی جانب دیکھ رہی ہے۔ کشمیر پاکستان کا قومی مسئلہ ہے’ اس تحریک میں دہشت گردی نام کی کوئی چیز نہیں۔ حافظ محمد سعید کو بھارتی دبائو پر نظربند کیا گیا۔کشمیریوں پر بھارتی مظالم کا ریکارڈ دنیا کے سامنے لایا جائے۔ میڈیا مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔ پچھلے دس ماہ سے کشمیر میں تحریک عروج پر ہے۔قاسم شہید کے جنازے میں لاکھو ں لوگ نکلے پھر برہان وانی کی شہادت کے بعد سے اب تک وہ بھارتی تسلط کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔تحریک آزادی کشمیر میں لازوال قربانیاں دی جا رہی ہیں۔معصوم بچے،طالبات میدان میں ہیں مگر ہم خاموش ہیں۔ پاکستان میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے کے’ موقف سے لوگ منحرف ہو رہے ہیں۔ کشمیر پر پاکستان میں مجرمانہ خاموشی اختیار کی جا رہی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے برہان وانی کی شہادت کے بعد ایک تقریر کی اس کے بعد اب تک خاموش ہیں۔ وہ بھارت سے دوستی چاہتے ہیں۔ہمیںاس عظیم قومی مسئلے کو اجاگر کرنا چاہئے۔کشمیری اپنی حدوں سے بہت آگے آ چکے ہیں ۔پاکستان کے پرچموں میں شہداء کو دفن اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔وہ دوٹوک نعرہ ہم کیا چاہتے آزادی لگاتے ہیں۔ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ کالم نویس،میڈیا پرسن کشمیر کے مسئلہ پر اپنی ذمہ داری کا قرض ادا کریں۔قوم کی تربیت و ذہن سازی کے لئے صحافی اپنے قلم کے ساتھ کردار ادا کرتے ہیں۔ اسلام آباد کے غلام حکمران ہیں۔حکمران قومیں بنایا کرتے ہیں مگر یہاں قومیں ٹوٹ رہی ہیں۔جماعة الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کو نظربند کیا گیا۔جنوری میں حافظ محمد سعید نے اعلان کیا تھا کہ سال2017کشمیر کے نام کرتے ہیں۔اس اعلان کے بعد انہیں نظربند کر دیا گیا۔حکومت نے کشمیریوں کی اخلاقی،سفارتی حمایت کا اعلان کیا تھا وہ کہاں ہے۔امیر جماعة الدعوة کو نظربند کر رکے کشمیریوں کو منفی پیغام دیا گیا۔ہم عدالت میں گئے لیکن ان کی نظربندی کے حوالہ سے کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔حکومت مودی کی مدد کر رہی ہے۔
کشمیر قومی مسئلہ ہے اس مسئلہ میں کوئی شدت،دہشت گردی نام کی کوئی چیز نہیں۔ پاکستان کا وزیر خارجہ ہی نہیں۔کشمیر کے حوالہ سے خارجہ پالیسی واضح نہیں،مشیروں کے ذریعے ملک چلایا جا رہا ہے۔کشمیری آج پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں انکی مدد وحمایت کرنی ہے۔ قوم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے اور کشمیریوں کو طاقتور پیغام دے کہ پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے۔آپا جی آسیہ اندرابی،سید علی گیلانی، یاسین ملک کو پیغام دیں کہ آپ میدان میں کھڑے ہیں پاکستانی ان کے ساتھ ہیں۔ کشمیری مظلوم ترین ہیں۔ان پر ہونے والے بھارتی مظالم کا ریکارڈدنیاکے سامنے لائے جائیں۔جنازوں کے جلوس میں ہزاروں، لاکھوں کشمیری شرکت کرتے ہیں اور ان کے سبز ہلالی پرچم میں دفن کیا جاتا ہے۔ چینلوں میں بھارتی ثقافت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جو کشمیریون کے لئے بھی تکلیف دہ ہے۔حافظ عبدالرحمان مکی نے کشمیر کا مقدمہ میڈیا پرسنز کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ اخبارات ،ٹی وی چینلز میں کشمیر کو جگہ دیں،وہاں لہو بہہ رہا ہے،شہادتیں ہو رہی ہیں، پاکستان زندہ باد کے نعرے ہیں،ہم کیا چاہتے آزادی کے نعروں کی گونج میں سبز ہلالی پرچم لہرایا جاتا ہے۔اخبارات اس قومی مسئلے کو نمایاں کوریج دیں اور کشمیریوں کی اس میدان میں مدد کریں۔