ایک بڑے قد کا انسان جسے نظر اٹھا کر دیکھنے سے سر پر رکھی جھوٹی انا کی پگ نیچے گر جاتی ہے اس کے لفظوں سے بجھتی آنکھوں کی خوابیدہ فصیلوں پر ستارے جگمگاتے ہیں
اس کے لفظ معطر ساعتوں کے لمس سے مسرور زندگی کا آغاز ہیں میرے عہد میں افتخار ایک سچے، باشعور اور بلند پایہ تخلیقی فنکار کی حیثیت سے فکری سطح پر موثر اور فعال کردار ادا کر رہا ہے تخلیقی اور تحقیقی میدان میں اس کا تازہ دم لہجہ اور بے پناہ تخلیقی صلاحتیں فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ہیں اپنے افسانے ”بنجارہ ”میں افتخار نے انصاف کشی کے لرزہ خیز واقعہ کے خلاف حرف صداقت لکھ کر جبر کے ہر انداز کو استرداد ٹھہرایا اس نے ثابت کیا ہے کہ زندگی بچانے کی نسبت جان دیکر جو سرفرازی نصیب ہوتی ہے اُس کے اثرات انسانی تاریخ پر نہایت دور رس ہوتے ہیں۔
جب ہوس اقتدار اس قدر بڑھ جائے کہ قومی مفاد سے اغماض برتا جانے لگے تو ترقی اور خوشحالی کے ثمرات سے عام آدمی محروم ہو جاتا ہے بیگ چونکہ معاشرے کا نباض ہے اور حساس بھی سو معاشرتی ارتعاشات کا فوری اثر اُس کی ذات پر پڑا اور اُس کے قلم سے حرف صداقت نکلا۔
بنیادی طور پر شاعر کا تشخص اپنے معاشرے سے ہی ہوتا ہے اس لئے یہ امر واضح ہے کہ وہ اپنے عوام ،قوم ،ملک حتیٰ کہ انسانیت کے ساتھ منسلک مسائل کا صحیح ادراک رکھتا ہے تبھی تو وہ تغیر پذیر کائنات سے اپنی فکر کو ہم آہنگ کرسکتا ہے افتخار کی شاعری میں حق گوئی اور بے باکی کا جو معیار نظر آتا ہے وہ اردو ادب کیلئے سرمایہ افتخار ہے اُس نے اپنی تخلیق ”کبھی تم سوچنا ”میں زندگی کی مختلف کیفیت اور صورت حال کی تصویر کشی کی ہے اُن تضادات کو شعر کی شکل دی جو ہماری زندگیوں کا حصہ بن گئے ہیں جن کے باعث ہم زوال کی طرف بھاگے چلے جا رہے ہیں اُس کے اس شعری مجموعہ میں رنگ ِ تغزل اپنی مکمل روح کے ساتھ موجود ہے جس میں افتخار اپنی جدت طبع اور اظہار کے نئے پیرایوں کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا ہے افتخار حالات کے کینوس پر انتہائی قلیل عرصہ میں تحقیق کے میدان میں ایک بڑا نام بن کر ابھرا ہے۔
Poetry
تحقیق ایک مخصوص مزاج ،انتہائی محنت اور حد درجہ ریاضت کی متقاضی ہے ،محقق کو تحقیق کا میلان فطرت کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے ایک حقیقی محقق کی زندگی کا اول و آخر تحقیق ہی ہوتی ہے اُس کی سوچ سود و زیاں کی سطح سے بہت بلند ہوتی ہے زندگی کی کٹھنائیوں اور سنگینیوں کے شانہ بشانہ اُس کا تحقیقی سفر چلتا ہے افتخار بیگ اسی منزل کا راہی نظر آتا ہے تحقیق اور تخلیق میں ایک لطیف سافرق یہ ہے کہ تخلیق ،تخلیق کار کے باطنی جذبوں ،فکری توانائیوں اور تخلیقی قوتوں سے مل کر نمو پاتی ہے ہمارے ہاں ایک المیہ یہ ہے کہ بعض نام نہاد محققین میں اخلاقی جرات اور تحقیقی دیانت داری شاذ ہی نظر آتی ہے واقعات کی چھان پھٹک تو در کنار سامنے کی بات کو مسخ کرنے کی ستم ظریفی عام ہے ممتازشعرا کے معروف کلام کو اپنے نام سے نقل کر کے گمراہی کا راستہ کھولا جارہا ہے اور ان نام نہاد محققین کا یہ کارنامہ اخلاقیات سے عاری ہونے کی نشاندہی ہے اورتو اور ان نام نہاد جہلا کے نزدیک تحقیق کوئی مشکل کام نہیں۔
پندرہ بیس کتابیں جمع کر لو اُنہیں پڑھ کر تحقیقی مقالہ یا کتاب لکھ ڈالو بس تحقیق ہو گئی اس قسم کی آرا بجائے خود تحقیق سے ناواقفیت اور عدم دلچسپی پر دلالت کرتی ہیں حقیقت یہ ہے کہ کسی موضوع پر تحقیق کے سلسلے میں بعض اوقات کسی ایسی نایاب کتاب کی ضرورت پیش آجاتی ہے جسے تلاش کرنے میں عرصہ لگ جاتا ہے کسی قدیم مخطوطے کا حصول اس سے مشکل تر ہے پھر کوئی نایاب کتاب ،مخطوطہ یا دستاویز مل بھی جائے تو تحقیق اُسے آنکھیں بند کرکے ماننے کی اجازت نہیں دیتی اس کے متعلقات بھی دیکھنے پڑتے ہیں کہ کیا وہ تحقیق کے تمام تقاضوں پر پورا اُتر کر سند کی حیثیت اختیار کر سکتی ہے؟
مگر افتخار بیگ کی اردو ادب میں تینوںتحقیقی کاوشیں لائق تحسین ہیں بیگ نے یقینا ًان کاوشوں کیلئے تحقیق کا کوہ بے ستون کاٹنے کیلئے مدتوں قلب و نظر کے تیشے سے کام لیا ہوگا اور بیگ جیسے محققین کی شبانہ روز محنت کی بدولت سالوں پر محیط کام کا ہم چند روز میں مطالعہ کر کے اپنی الجھن دور کر سکتے ہیں ایسے محقیقین کی تحقیق ہمارے زاویہ نظر کو درست کر کے جلد بازی سے بچانے میں معاون ہے جو ہمارے اندر سوچ بچار ،اعتدال ،مستقل مزاجی اور ذمہ داری جیسی صفات پیدا کر رہی ہے تحقیق کی قدرو منزلت کو چشم بصیرت سے دیکھنے والے ہی جانتے ہیں کہ قومیں غورو فکر ،شعورو حکمت ،تہذیب و تمدن اور تعمیر و ترقی سے تب ہی افتخار پاتی ہیں جب ہم میں افتخار جیسے اصلی محقق موجود ہوں۔